پاک افغان تعلقات میں جاری کشیدگی کے دوران اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں دونوں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان اور وزرائے خارجہ کی سطح پر رابطوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کے انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ عبدالحق واثق آج ترکی کے شہر استنبول روانہ ہورہے ہیں، جہاں ترک حکام کی زیرِ نگرانی ان دونوں کی سربراہی میں مذاکرات کا تیسرا اور اہم ترین مرحلہ کل شروع ہوگا۔ یہ مذاکرات پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری تناؤ کے پس منظر میں ایک بڑی سفارتی کوشش تصور کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق استنبول میں ہونے والے یہ مذاکرات ترک خفیہ ادارے “ایم آئی ٹی” کے سربراہ ابراہیم قالن کی میزبانی میں ہوں گے، جس کا مقصد سرحدی کشیدگی، دہشت گردی، اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں، خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں بننی چاہیے۔ اسلام آباد نے یہ مؤقف مسلسل کابل کے سامنے رکھا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کا دار و مدار اسی شرط پر ہوگا کہ افغان عبوری حکومت عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات اٹھائے۔
اس اہم رابطے سے قبل پاک افغان وزرائے خارجہ کے درمیان بھی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی۔ سینیٹ کے 355ویں اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ روز انہیں “چھ مرتبہ فون پر رابطہ” کیا۔ اسحاق ڈار کے مطابق یہ کالز حالیہ کشیدگی کے بعد تعلقات میں باضابطہ ہم آہنگی کی پہلی سنجیدہ کوشش تھیں۔
دوسری جانب افغان وزارتِ خارجہ نے اسحاق ڈار کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیر خان متقی کی جانب سے چھ کالز کرنے کا دعویٰ “حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا”۔ وزارت کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد نے کابل میں میڈیا کو بتایا کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان صرف ایک کال “باہمی ہم آہنگی” کے تحت ہوئی، جس میں اسحاق ڈار نے یقین دلایا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے کر دوبارہ رابطہ کریں گے۔ تاہم بعد میں ان کی جانب سے رابطے کی کوشش ضرور کی گئی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بیانات ایک بار پھر ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کا فقدان بدستور موجود ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی آزادانہ سرگرمیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں، جبکہ افغان عبوری حکومت کا مؤقف ہے کہ اسے پاکستان کے داخلی معاملات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
استنبول میں متوقع انٹیلی جنس مذاکرات کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ممکنہ “ٹرننگ پوائنٹ” قرار دیا جا رہا ہے۔ ترکی، جو دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کردار ادا کر رہا ہے، امید رکھتا ہے کہ اسلام آباد اور کابل اپنے اختلافات کو مذاکرات کی میز پر حل کر سکیں گے اور سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے گا۔
دیکھیں: افغان انٹیلی جنس کا کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینے کا انکشاف