اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں خطاب کے دوران غزہ کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر ایک داغ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے، تقریباً 80 سال سے فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر اسرائیل کے جابرانہ اور ظالمانہ قبضے کو بڑی بہادری سے برداشت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں غیر قانونی آباد کار بلاخوف و خطر روزانہ فلسطینیوں کو شہید کر رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پُرس کرنے والا نہیں ہے۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیل نسل کشی کررہا ہے اور بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اور ایسا ظلم کررہا ہے جو ہمیں تاریخ میں نظر نہیں آتا، اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیلی لیڈرشپ نے معصوم فلسطینیوں کے خلاف ایک شرمناک مہم شروع کر رکھی ہے جسے تاریخ کے سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
شہباز شریف نے 6 سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی شہادت کا تذکرہ کیا، جو اس وقت شہید ہوئی جب اس کا خاندان غزہ سے جا رہا تھا، ہند رجب کی کہانی اس جنگ کے سب سے ہولناک سانحات میں سے ایک بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم سب نے اُس فون کال پر اس کی کانپتی ہوئی آواز سنی، جو ننھی ہند نے اسرائیلی حملے کے دوران زندہ رہنے کی جدوجہد کرتے ہوئے کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ ننھی بچی ہند رجب ہماری بیٹی ہوتی؟ ہم اسے بچانے میں ناکام رہے اور وہ ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
غزہ میں جنگ بندی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا
وزیراعظم نے کہا کہ سب سے چھوٹے تابوت اٹھانا سب سے زیادہ بھاری ہوتا ہے، میں یہ جانتا ہوں، کیونکہ میں نے حالیہ بھارت کے ساتھ تصادم کے دوران ارتضیٰ عباس کا تابوت اٹھایا تھا۔ وہ صرف چھ سال کا تھا، اس لیے ہم غزہ کے ان بچوں یا دنیا کے کسی بھی کونے کے کسی بھی بچے کو ناکام نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے، ہمیں ابھی جنگ بندی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے فلسطین کی ایک خودمختار ریاست کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا، جس کی سرحدیں 1967 سے پہلے کی ہوں اور جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اب مزید اسرائیلی بیڑیوں میں نہیں رہ سکتا، اسے آزاد ہونا چاہیے اور پوری وابستگی اور پوری قوت کے ساتھ آزاد ہونا چاہیے۔
انہوں نے حال ہی میں کئی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا خیرمقدم کیا اور دیگر ممالک پر زور دیا کہ وہ بھی ایسا کریں۔
اس ہفتے کے اوائل میں ٹرمپ کی مسلم ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے امریکی صدر کی بر وقت پہل کو سراہا کہ انہوں نے غزہ پر یہ اجلاس بلایا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں بھی اس مشاورتی عمل کا حصہ تھا اور میں اللہ تعالیٰ سے امید اور دعا کرتا ہوں کہ یہ بہت قریب مستقبل میں جنگ بندی کی امید کو دوبارہ زندہ کرے۔
انہوں نے دوحہ پر اسرائیل کے حالیہ حملے پر بھی تنقید کی جس میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
وزیراعظم نے یوکرین تنازع کے پرامن حل کی کوششوں کی بھی حمایت کی، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہو تاکہ اس طویل جنگ سے پیدا ہونے والی انسانی تکالیف اور عالمی ابتری کا خاتمہ ہو سکے۔
دیکھیں: امن کی نئی راہ: فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی عالمی لہر