افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر محمد منصور کے بیٹے اور افغان وزارت ٹرانسپورٹ و ایوی ایشن کے نائب وزیر فتح اللہ منصور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ایک پڑوسی ملک میں موجود شرپسند عناصر‘‘ طالبان کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور انہیں ’’ختم‘‘ کرنا ضروری ہے۔ ان کا یہ بیان بظاہر پاکستان کی جانب اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
فتح اللہ منصور نے طالبان رہنماؤں کی مکمل اطاعت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تحریک کے امیروں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہی افغانستان کے استحکام کی ضمانت ہے۔ ان کے مطابق بعض عناصر پڑوسی ملک سے افغانستان کے اندر ’’بدامنی پیدا کرنے‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں، جسے طالبان ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
فتح اللہ منصور کے والد، ملا اختر محمد منصور، جو طالبان کے امیر رہ چکے ہیں، 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے اور اطلاعات کے مطابق اکثر کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے مختلف ملکوں کا سفر کرتے رہے تھے۔
Taliban’s Former Leader’s Son Warns ‘Evil Elements’ in Neighboring Country Must Be Neutralized
— Aamaj News English (@aamajnews_EN) December 2, 2025
Fathullah Mansoor, son of former Taliban leader Akhtar Mohammad Mansoor and deputy minister of transport and aviation, warned that “evil elements” in a neighboring country—an implicit… pic.twitter.com/7FjJEbbweA
طالبان رہنما کے اس بیان پر پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر کسی براہِ راست جواب کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے ایسے بیانات کو ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ اور ’’زمینی حقائق کے منافی‘‘ قرار دیا ہے۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی قربانیاں دے رہا ہے۔ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جس کی متعدد بار شواہد پیش کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کسی پڑوسی ملک کے خلاف سازش یا مداخلت پر یقین نہیں رکھتا، بلکہ خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق سرحد پار سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ تشویش ناک ہے، جنہیں روکنے کی ذمہ داری طالبان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستانی سفارتی حکام نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ سرحدی سیکیورٹی، انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات پر افغانستان کے ساتھ عملی تعاون ہی خطے کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے، نہ کہ اشتعال انگیز بیانات۔
دونوں ممالک کے تعلقات پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں، اور مبصرین کے مطابق ایسے بیانات ماحول کو مزید کشیدہ بنا سکتے ہیں۔
دیکھیں: افغان طالبان کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی کارروائیاں تیز؛ فاریاب اور قندوز میں متعدد طالبان ہلاک