ضلع خیبر کی وادی تیراہ ایک بار پھر خوارج دہشت گردوں کی بربریت اور جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بنی۔ حالیہ سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹا بیانیہ گردش میں آیا کہ پاکستانی فضائیہ نے آبادی پر حملہ کیا، لیکن مستند ذرائع، مقامی عینی شاہدین اور سیکیورٹی اداروں کی تحقیقات اس دعوے کو یکسر جھٹلا دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے اپنے زیرِ زمین بارودی ذخائر پھٹنے سے یہ سانحہ پیش آیا، جس میں خوارج کے ساتھ ساتھ وہ عام شہری بھی متاثر ہوئے جنہیں ان سفاک عناصر نے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
سانحے کی تفصیل
متر درہ، وادی تیراہ کے علاقے آکا خیل میں دہشت گردوں نے ایک بڑا کمپاؤنڈ قائم کر رکھا تھا، جسے بارودی سرنگوں، اسنائپر ٹریننگ اور دھماکہ خیز مواد بنانے کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق وہاں خوارجی کمانڈر امان گل اور مسعود اپنے گروہ کے ہمراہ موجود تھے۔

اسی کمپاؤنڈ میں اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس سے نہ صرف مرکز تباہ ہوا بلکہ قریبی مکانات بھی متاثر ہوئے۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق 12 سے 14 ٹی ٹی پی دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ 8 سے 10 عام شہری بھی جاں بحق ہوئے، جنہیں دہشت گرد اپنے تحفظ کے لیے گھروں اور مساجد میں زبردستی رکھے ہوئے تھے۔
عام شہریوں کا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال
یہ پہلی بار نہیں کہ خوارج نے اپنی حفاظت کے لیے عام شہریوں کو ڈھال بنایا ہو۔ اس سے پہلے باجوڑ اور وزیرستان میں بھی ایسی ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں جن میں دہشت گرد مساجد اور حجروں کو اپنی رہائش گاہ اور گودام بناتے دکھائی دیے۔
اسی طرح چند روز قبل بنوں کے علاقے بکا خیل میں صدیق اللہ گرباز نامی خوارجی نے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمد وزیر کے جرگہ ہال کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا۔ وہاں بھی اچانک بارودی مواد پھٹنے سے بڑا سانحہ پیش آیا۔
خوارج کے یہی ہتھکنڈے ثابت کرتے ہیں کہ یہ عناصر نہ صرف ریاست بلکہ عام عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
پروپیگنڈا مہم
سانحہ تیراہ کے بعد پی ٹی ایم اور بعض سیاسی عناصر نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر پرانی تصاویر شئیر کرنا شروع کیں اور اسے “پاک فوج کی بمباری” کا رنگ دینے کی کوشش کی۔

مگر ان تصاویر کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ماضی کے واقعات کی ہیں جنہیں عوام کو گمراہ کرنے کے لیے دوبارہ پیش کیا گیا۔ مقصد صرف ایک تھا: ریاستی اداروں کو بدنام کرنا اور خوارج کے بیانیے کو تقویت دینا۔

حقائق اور اعداد و شمار
- ہلاک دہشت گردوں کی تعداد: 12 سے 14
- شہری اموات: 8 سے 10 (ان میں خواتین اور بچے شامل ہیں)
- دہشت گرد کمانڈرز: امان گل اور مسعود سمیت متعدد افغان دہشت گرد موجود
- مرکز کی نوعیت: آئی ای ڈی مینوفیکچرنگ فیکٹری، اسنائپر اور بارودی تربیتی مرکز
- مقامی آبادی پر اثرات: متعدد گھروں کو نقصان، درجنوں افراد متاثر
فوجی مؤقف اور اصل حقیقت
پاکستانی فوج کے مؤقف کے مطابق کسی بھی قسم کی فضائی کارروائی نہیں کی گئی۔ فوج کا کہنا ہے کہ ان کی کارروائیاں ہمیشہ دہشت گردوں تک محدود رہتی ہیں، اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا ان کی حکمتِ عملی کا حصہ کبھی نہیں رہا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ خوارج نے گنجان آبادی کے درمیان بارودی ذخائر چھپا رکھے تھے، جو ناقص اسٹوریج اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث پھٹ گئے۔
ماہرین کی آراء
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کتنی ضروری ہیں۔ اگر ان مراکز کو وقت پر ختم نہ کیا جائے تو یہ مزید جانی نقصان کا باعث بنتے رہیں گے۔
ایک مقامی سماجی کارکن کے مطابق:
“ہمارے گاؤں کے لوگ ان خوارج کی موجودگی سے تنگ ہیں۔ وہ گھروں میں بارود رکھتے ہیں اور پھر ہمارے بچوں کو ڈھال بناتے ہیں۔”
پاکستان کا عزم
ریاست پاکستان ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دہراتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی بھی قیمت پر جاری رہے گی۔ جھوٹے پروپیگنڈے اور فتنہ خوارج کے باوجود، پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کو ان درندوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
یہ عزم صرف خوارج کے خلاف نہیں بلکہ ان تمام عناصر کے خلاف ہے جو ان کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔
وادی تیراہ کا سانحہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ خوارج نہ صرف دہشت گردی کے ذریعے بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے بھی قوم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت بھی اب سب پر عیاں ہے کہ اصل مجرم وہی ہیں جو بارود کے ڈھیر گھروں میں چھپاتے ہیں، مساجد کو اڈے بناتے ہیں اور بچوں کو ڈھال بناتے ہیں۔
پاکستانی عوام اور ریاست کا بیانیہ واضح ہے:
اصل دشمن خوارج ہیں، نہ کہ وہ فوج جو امن و استحکام کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔
دیکھیں: پاکستان نے افغان سفیر کو طلب کرلیا، ٹی ٹی پی سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ