چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ اس وقت برپا ہوا جب ایک معروف صحافی نے دعویٰ کیا کہ ڈیرہ بگٹی سے زرینہ مری نامی ایک خاتون ٹیچر کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ خبر کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا جیسے بلوچستان میں کسی بڑے سانحے نے جنم لیا ہو۔ چند گھنٹوں میں یہ دعویٰ مختلف پلیٹ فارمز پر پھیل گیا، جذبات کو بھڑکایا گیا اور اسے انسانی حقوق کی ایک نئی “گمشدگی” کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
تاہم چند ہی گھنٹوں بعد حکومت بلوچستان نے اس خبر کو مکمل طور پر جھوٹ اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ حکومتی ترجمان کے مطابق نہ زرینہ مری نام کی کوئی ٹیچر ڈیرہ بگٹی کے ریکارڈ میں موجود ہے اور نہ ہی کسی قسم کے اغوا کا کوئی واقعہ پیش آیا۔ اس طرح یہ دعویٰ محض ایک پروپیگنڈا مہم ثابت ہوا جس کا مقصد صوبے میں انتشار پھیلانا، ریاستی اداروں کو بدنام کرنا اور جعلی بیانیے کے ذریعے عوامی رائے کو متاثر کرنا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں کہ اس نوعیت کی کہانی گھڑی گئی ہو۔ اس سے قبل بھی بلوچستان میں ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں “گمشدہ افراد” کے نام پر من گھڑت کہانیاں تراشی گئیں، سوشل میڈیا مہم چلائی گئی اور بعد میں حقائق نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی۔
اسی سلسلے کی سب سے نمایاں مثال عبدالودود ستکزئی کا کیس ہے۔ اس کی بہن انسانی حقوق کے کیمپوں میں تصویریں اٹھا کر کھڑی رہتی رہی، ملک بھر میں اسے “مسنگ پرسن” کے طور پر پیش کیا جاتا رہا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کیا گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد بی ایل اے نے خود اعتراف کیا کہ عبدالودود ستکزئی کوئی گمشدہ فرد نہیں تھا بلکہ تنظیم کا تربیت یافتہ خودکش حملہ آور تھا جو مچ حملے میں مارا گیا۔ یوں ایک اور فرضی بیانیہ زمینی حقائق کے سامنے دھڑام سے گر گیا۔
ماہرین کے مطابق بلوچستان میں ایسی جعلی کہانیوں کا مقصد ریاست کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورک کو “انسانی حقوق” کے پردے میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہر نئی “گمشدگی” کے پیچھے دراصل ایک پرانا پروپیگنڈا فارمولا کارفرما ہوتا ہے: ایک فرضی نام، ایک جذباتی پوسٹ، کچھ گھڑی ہوئی تفصیلات، اور پھر حقیقت کے سامنے آنے پر خاموشی۔
یہ معاملہ ایک اہم سبق بھی دیتا ہے: بلوچستان میں ہر وائرل ہونے والی ‘گمشدگی’ کی کہانی حقیقت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات زرینہ مری کے نام پر، کبھی ودود ستکزئی کے نام پر، وہی پرانا پروپیگنڈا دوبارہ زندہ کر دیا جاتا ہے۔ عوام، میڈیا اور پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی خبروں کی تصدیق کے بغیر انہیں سچ نہ مانا جائے۔
دیکھیں: ملک کے 20 پسماندہ اضلاع میں سے 17 بلوچستان کے اضلاع، رپورٹ میں انکشاف