امریکہ و اسرائیل کی جانب سے ٦روزہ غزہ جنگ بندی کے فیصلے کو بہت نمایاں کرکے دکھایا جا رہا ہے، لیکن یہ فیصلہ فلسطینیوں کے اہم مطالبات جیسے آزادانہ حقوق، مہاجرین کی واپسی، اور حقِ آزادی کو نظرانداز کرنےکے مترادف ہے۔ اس فیصلہ میں واضح طور پراسرائیل کی شرائط شامل ہیں، جبکہ حماس پر شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بغیر کسی مزاحمت کےوہ خاموش رہے۔۔
ایران کی معنی خیز خاموشی
امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران نے کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا۔ یہ اس بات کا عندیہ ہیکہ ایران جوابی کاروائی کےعمل کو از سرِنوں دیکھ رہا ہے۔ جوکہ مستقبل میں خطےکےلیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
ایران پرعالمی دباؤ
حالیہ حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، لیکن ایران نے جواباً کسی وسیع پیمانے پر کارروائی نہیں کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنی طاقت کو محتاط انداز سے استعمال کررہاہے ،مزید یہ کہ کسی عالمی جنگ میں الجھنے سے گریزاں ہے۔
حماس کو ایران کا ایجنٹ قرار دینا
ٹرمپ نے اپنے بیان میں حماس کو ایران کا ایجنٹ قرار دے کر تہران کو براہ راست تنازعے کا حصہ بنا دیا ہے۔ چاہے ایران کھل کر حمایت کرے یا نہ کرے، اب اسے اس غزہ جنگ میں فریق سمجھا جائے گا۔
اسرائیل-ایران کشیدگی
حالیہ جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگا لیا ہے۔ ایران اب کھلی جنگ کی بجائے اتحادیوں کے ذریعے اپنا خوب اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔
خفیہ دھمکیاں اور میڈیا پر حاوی
عالمی ماہرین کا کہنا ہیکہ اب ایران کھلے اعلانات کی بجائے اپنے اتحادیوں (جیسے یمن کے حوثی، لبنان کی حزب اللہ) کے ذریعے اپنا پیغام پہنچائے گا۔ میڈیا پر کنٹرول اور خاموشی بھی اس کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
جنگ بندی یا محض چال؟
ٹرمپ کی غزہ جنگ بندی کی پیشکش کا حقائق سے کوسوں دور تک تعلق نظر نہیں آرہا، بلکہ صرف دکھلاوے کےلیے ایسی چالیں چلی جارہی ہیں بلکہ ممکن ہیکہ نوبل امن انعام کے لیے یہ سب کچھ کیاجارہاہو۔
زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ تمام معاملات میں فلسطینیوں کےحقوق کو یکسر نظرانداز کیا جارہاہے۔
ایران فی الحال اپنی قوت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ مستقبل میں وہ اپنے اتحادیوں کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے اپنا ردعمل ضرور دے گا۔ ایران کی خاموشی حکمت عملی سے لبریز ہے۔
حالیہ صورتحال میں ایران اور حماس دونوں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی پیشکش اگرچہ میڈیا پر اچھالی جارہی ہے، لیکن یہ کوئی نتیجہ نہیں ہوگی جب تک فلسطینیوں کے حقوق و جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
دیکھیں: ٹرمپ کا دورانِ جنگ ایرانی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ