کینیڈا -17 جون 2025 – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ممالک کے گروپ کے سربراہی اجلاس [ جی سیون ] سے قبل از وقت واپس روانہ ہو گئے جبکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازعہ پانچویں روزمیں داخل ہو چکا ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں صنعتی ممالک کے گروپ کے رہنماؤں نے اسرائیل سے “فوری طور پر دشمنیوں میں کمی” کی اپیل کی جس میں غزہ جنگ بندی بھی شامل ہے۔ انہوں نے “امن اور استحکام” کی حمایت کا اعادہ کیا جبکہ اسرائیل کے خود دفاع کے حق کو بھی تسلیم کیا۔
تاہم ٹرمپ نے بیان کے ابتدائی مسودے کو مسترد کر دیا جس کی وجہ ایران کے حوالے سے اختلافات بتائے جا رہے ہیں۔ پھر بھی حتمی بیان پیر کی رات جاری کیا گیا جس میں زور دیا گیا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں ہونے دینا چاہیے اور تہران کو “عدم استحکام اور دہشت گردی کا ایک اہم ذریعہ” قرار دیا گیا۔
یہ بیان بڑھتے ہوئے تشدد کے دوران سامنے آیا۔ ایرانی حکامِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ایران میں 220 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ایران نے ٹیلی ویژن اور دیگر اہداف پر میزائل حملے کر کے جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں تل ابیب کے رہائشیوں کو پناہ گاہوں میں مقیم ہونا پڑا۔ اس کے برعکس اسرائِل میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ٹرمپ کا جوہری انتباہ
ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا کہ وہ “واضح وجوہات” کی بنا پر اجلاس سے قبل از وقت واپس چلے گئے اور ان کی واپسی کا مقصد واشنگٹن میں “زیادہ اہم اور بڑے امور” پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے سوشل پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایرانیوں کو خبردار کیا کہ وہ “فوری طور پر تہران خالی کر دیں” اور بارہا کہا کہ “ایران کو جوہری ہتھیار نہیں مل سکتا۔”
کچھ ہی دیر بعد ایرانی میڈیا نے تہران میں دھماکوں اور فضائی دفاعی سرگرمیوں کی اطلاعات دیں۔ اس سے کچھ گھنٹے قبل اسرائیلی میزائل حملے میں ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے کو نشانہ بنایا گیا جس کے دوران براہ راست پروگرام میں میزبان کو فرار ہونا پڑا۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسٹھ نے خطے میں اضافی فوجی صلاحیتوں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ امریکہ اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں میں حصہ ہر گز نہیں لے گا۔
اجلاس سے قبل از وقت روانہ ہونے کے باوجود ٹرمپ نے برطانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ فائنل کیا اور کینیڈا کے ساتھ مستقبل کے معاہدات پر بات چیت کی۔ انہوں نے روس کے حوالے سے بھی اپنا موقف دہرایا اور 2014 میں ماسکو کو صنعتی ممالک کے گروپ سے نکالنا “غلطی” قرار دیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ٹرمپ کے قبل از وقت انخلاء کی حمایت کی، کہا کہ یہ جنگ بندی کو یقینی بنانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ آسٹریلوی حکام نے بھی اس اقدام کو “قابل فہم” قرار دیا۔
تاہم اجلاس سے بحران کے سلسلے میں اختلافات بھی سامنے آئے۔ اگرچہ صنعتی ممالک کے گروپ کے رہنماؤں [ جی سیون ] نے اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کی لیکن ناقدین کا یہ سوال تھا کہ کیا یہ موقف واقعی میں تناؤ کم کرنے کی اپیل کے مطابق ہے؟