غزہ شہر۳۰جون، ۲۰۲۵
غزہ کو گزشتہ ہفتوں میں اسرائیلی بمباری کا شدید سامنا کرنا پڑا، عین اسی وقت جب اسرائیلی فوج نے پیرکےروزوسیع پیمانے پر آبادی خالی کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ جبکہ دوسری جانب اسرائیلی حکام امریکی انتظامیہ سے غزہ جنگ بندی مذاکرات کے لیے واشنگٹن جا رہے تھے۔
باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ۲۰ماہ سے جاری جنگ ختم کرنے کی کوششیں جبکہ دوسری جانب غزہ شہر میں دھماکوں اور فائرنگ کی گونج سنائی دی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
جنگ بندی کی کوششیں
اسرائیلی ٹینک غزہ شہر کے قریب علاقے زیتون کے مشرقی حصے میں داخل ہوئے نتیجتاً فضائی حملوں میں چار اسکولوں سمیت متعدد اشیاءکو نشانہ بنایا گیا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ سینکڑوں لوگ بمباری سے قبل محفوظ ٹھکانہ تلاش کرنے پر مجبور ہوئے۔انہوں نے اسکولوں اور گھروں کو نشانہ بنایا
فلسطینی حکام کے مطابق صرف پیر کےروز کم از کم ۲۵افراد ہلاک ہوئے جبکہ زیتون میں ۱۰ہلاکتیں ہوئیں۔ شام تک ناصر ہسپتال نے غزہ شہر کے جنوب مغرب میں ۱۳مزید ہلاکتوں کی اطلاع دی، جس سے دن بھر کی کل ہلاکتیں ۳۸ہو گئیں۔اطلاع کےمطابق زیادہ ترلوگ گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے، تاہم مقامی افراد نے فضائی حملوں کا بھی بتایاہے۔ جبکہ جانبِ ثانی اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اصل نشانہ حماس کے کمانڈ سنٹرزتھا۔
واشنگٹن مذاکرات
جیسے ہی تشدد میں اضافہ ہوا اسرائیلی تزویراتی امور کے وزیر رون ڈرمر وفد سمیت ایران اور غزہ مسئلے کے متعلق اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے لیے واشنگٹن پہنچ گئے۔
جبکہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے میں امریکہ کی طرف سے طےشدہ ٦۰دن کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔حماس مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا پر قائم ہے۔ ۵٦,۰۰۰ سے زائد فلسطینیوں کے ہلاک اور تقریباً ۲.۳ ملین کے بے گھر ہونے کے نتیجے میں حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
قطر ومصر کا ثالثی کردار
ایران کے خلاف حالیہ کاروائی نے نیتن یاہو کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ تاہم غزہ جنگ بندی پر معاہدہ نہ کرنے پرعالمی سطح پر نیتن یاہو پر تنقید بڑھ رہی ہے۔
عوامی ذرائع سے معلوم ہوا کہ اگرچہ نیتن یاہو کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ۵۲فیصد اسرائیلی اب بھی چاہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیں۔ مزید یہ کہ عوامی اکثریت نے غزہ جنگ بندی کی حمایت کردی ہے۔
تل ابیب میں مظاہرے
ہزاروں مظاہرین نے ہفتے کےروز تل ابیب کی سڑکوں پر نکل آئے، جس میں جلدازجلد جنگ بندی اور قیدیوں کی باعزت واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ گزشتہ جنگ بندی کے دوران آزاد ہونے والی قیدی لیری الباغ نے صدر ٹرمپ سے غزہ جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کا درخواست کی۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے غزہ کےمتعلق موجودہ حکمت عملی کو عدم اطمینان قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کرنے کے لیے اصولی معاہدے کا مطالبہ کیا۔
ا گل ڈکمین نے زور دیا کہ اگرچہ ایران کے خلاف حالیہ حملہ نیتن یاہوکی کامیابی قراردیا جا سکتا ہے،تاہم نیتن یاہو کی غزہ پر قبضہ کرنے اور قیدیوں کو محفوظ بنانے میں ناکامی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح کےبیانات عوامی مؤقف کو واضح کرتے ہیں جو کشیدگی کے بجائے امن اور انسانی تحفظ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
جہاں غزہ کے لوگ ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں وہاں اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ عالمی و سفارتی کوششیں جلد از جلد مثبت نتائج لائیں۔
مذاکرات کے باوجود غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی حملے میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
دیکھیں; غزہ جنگ کے دوران القاعدہ کا خطرہ، امریکی حکام ہدف پر