ناروے نے ایک بڑی پیشِ رفت میں طالبان کی عبوری حکومت کے مقررکردہ سفارتکار کو باضابطہ طورپرقبول کرلیاہے۔جوکہ طالبان حکومت کے ساتھ یورپی روابط میں ایک اہم قدم تصور کیا جارہاہے۔ تاہم طالبان سفارتکار کی تقرری سے یورپی کی سطح پر ایک نئی بحث چھڑچکی ہے کہ اس قسم کی عملی سفارکاری انسانی و علاقائی مفادات کو کس طرح متاثرکرسکتی ہے۔
تعلقات میں پیشِ رفت
افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے مذکورہ فیصلے کی تصدیق بروزِ جمعرات کی ہے۔قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اس پیشِ رفت کو باہمی اعتماد میں پختگی اور نہایت ہی اہم قراردیتے خصوصی شکریہ اداکیا دیا۔ناروے اگرچہ یورپین یونین کا رُکن نہیں ہے لیکن یورپی اقتصادی علاقے کا حصہ ہونے کی بنا پر یورپی خارجہ پالسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔لہذا ناروے کامذکورہ عمل پورے برِ اعظم میں اثرانداز ہوسکتاہے۔
علاقائی صورتحال
ملاقات کے دوران امیر خان متقی نے خطے کی کشیدگی بالخصوص ایران پر جاری مسلط جنگ پرگفتگو کرتے ہوئےایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا ظہارکیا اور کہا کہ اسلامی و انسانی اقدار کے تحت ایران کے ساتھ کھڑا ہونا ہماری ذمہ داری ہے۔
افغان وزارتِ خارجہ کے مطابق ناروے نے خطے کی حالیہ پیشی رفت کونہ صرف تسلیم کیا بلکہ افغانستان میں اپنا ایک اعلیٰ سطح ناروےوفد کےدورے کا بھی اعلان کیا تاکہ تعلقات کی مزید راہیں تلاش کی جاسکیں۔
طالبان حکومت سے تعلقات
اگرچہ بین الاقوامی برادری اب بھی طالبان کو باضابطہ طورپر تسلیم نہین کرتی لیکن طالبان سفارتکاری کی تعیناتی سے یہ بات واضح ہوتی ہیکہ عملی سفارتی رابطے ممکن ہیں۔ناروے کا فعل یہ بات ظاہر کرتاہیکہ سفارتی تعلقات چاہے رسمی ہی کیوں نہ ہوں تاہم حکمتِ عملی اور انسانی مقاصد کے لیے اہم ہوسکتےہیں۔
ناروے کی اس حکمتِ عملی کو خطے بھر میں سفارتی رابطوں کے ایک نئے عمل کےطورپردیکھاجارہاہے۔بھرحال آنے والے دنوں میں یہ دیکھںا ہوگا کہ دیگر یورپی ممالک کیا رد عمل دیتےہیں۔