نئی دہلی میں اسلامی امارت افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ بھارت (9 تا 16 اکتوبر 2025) کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بھارت کی خارجہ پالیسی کے دوہرے معیار کو آشکار کر دیا۔ طالبان وفد نے نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو داخل ہونے سے روک دیا، جو نہ صرف بھارتی آئین کی روح کے منافی تھا بلکہ مودی حکومت کے لیے شدید سبکی کا باعث بھی بنا۔
امیر خان متقی نے نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں گفتگو کے دوران کسی خاتون صحافی کو اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ pic.twitter.com/Ie5e4G1a68
— HTN Urdu (@htnurdu) October 11, 2025
بھارتی میڈیا کی نمایاں صحافیوں، جیسے اسمتا شرما، سہاسنی حیدر اور پولومی سہا نے اس اقدام پر سخت تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ بھارت جیسے ملک میں خواتین صحافیوں پر پابندی کے ساتھ طالبان کا پروگرام کیسے منعقد ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو مودی حکومت کی “سکیورٹی پراگمیٹزم” یعنی موقع پرستی پر مبنی خارجہ پالیسی کا عکاس قرار دیا گیا۔
No Woman Journalist invited to the press conference by Muttaqi. No reference to the horrible plight of Afghan girls and women under Taliban regime in opening remarks of EAM Jaishankar or the joint statement issued after talks with Muttaqi. Muttaqi getting the red carpet welcome… https://t.co/EG4dBaZ30L
— Smita Sharma (@Smita_Sharma) October 10, 2025
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان خواتین کے حقوق یا ان کی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس خاموشی کو بھارتی حکومت کی سیاسی مجبوری اور طالبان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ناقدین کے مطابق بھارت نے ایک ایسے نظام کو ریاستی پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جو خواتین کی تعلیم، روزگار اور بنیادی حقوق کو منظم انداز میں پامال کرتا ہے۔ یہ اقدام اس ملک کے “ناری شکتی” اور خواتین کے احترام کے نعروں کی نفی کرتا ہے۔
یہ واقعہ نئی دہلی میں صرف ایک پریس کانفرنس نہیں تھا بلکہ ایک علامتی منظر تھا — جہاں نہ صرف افغان بلکہ بھارتی خواتین کی آواز کو بھی دبایا گیا۔ مودی حکومت کی یہ خاموشی بھارت کے اخلاقی معیار پر ایک گہرا سوال چھوڑ گئی ہے۔
دیکھیں: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دار العلوم دیوبند کا دورہ، فقید المثال استقبال کیا گیا