بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے افغان طالبان کے دو اہم رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں جن میں سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی شامل ہیں۔ ان پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف مبینہ ظلم و ستم کا الزام لگایا گیا ہے۔ تاہم ان وارنٹس کے اجراء پر دنیا بھر میں سوالات اٹھنے لگے ہیں، خاص طور پر جب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت میں غزہ میں ہزاروں خواتین و بچوں کے قتل پر آئی سی سی خاموش ہے۔
آئی سی سی نے منگل کو جاری بیان میں کہا کہ “معقول شواہد موجود ہیں” کہ طالبان رہنماؤں نے صنفی بنیادوں پر خواتین کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ طالبان حکومت نے خواتین کی تعلیم، نقل و حرکت، اظہار رائے، مذہب اور نجی زندگی جیسے حقوق چھین لیے۔
دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اسلامی امارت کے رہنماؤں اور حکام نے افغانستان میں اسلامی شریعت کی روشنی میں مثالی انصاف قائم کیا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی سی سی کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور عدالت کی خاموشی اُس وقت شرمناک ہے جب “روزانہ غزہ میں درجنوں خواتین اور بچے اسرائیلی حملوں میں شہید ہو رہے ہیں۔”
واضح رہے کہ 2022 کے آخر میں ترکیہ، سعودی عرب اور قطر سمیت کئی مسلم ممالک نے طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مذمت کی تھی تاہم آج انہی ممالک کی خاموشی اور آئی سی سی کے دوہرے معیار پر عالمی مسلم رائے عامہ میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے۔
انصاف کا مطالبہ صرف افغانستان یا طالبان تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسرائیل جیسے جنگی جرائم کے مرتکب افراد پر بھی یکساں انداز میں کارروائی ہونی چاہیے۔