چالیس سال سے زائد عرصے سے افغانستان جنگ، بے گھر ہونے اور عدم استحکام کے ایک مسلسل چکر میں پھنس چکا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی کہانی صرف تکلیف اور نقل مکانی کی نہیں، بلکہ لچک، بقا اور پائیدار حل کی ضرورت کی بھی ہے۔ اس مسئلے کے مرکز میں ایک اہم سوال ہے: افغانستان کو اب اپنے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ اور یہ اس کی عالمی حیثیت پر کیا اثر ڈالتا ہے؟
جنگ اور نقل مکانی کی تاریخ
افغانستان کا پناہ گزینوں کا بحران 1979 میں شروع ہوا، جب سوویت یونین نے ملک پر حملہ کیا۔ اس حملے کے جواب میں لاکھوں افغان شہریوں نے پناہ کے لیے ملک چھوڑا۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں تقریباً 3 ملین افغان پناہ گزین پاکستان پہنچے، جنگ سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے۔ اس دہائی کے آخر تک یہ تعداد 3.5 ملین سے تجاوز کر گئی، جو جدید تاریخ کی سب سے بڑی پناہ گزینی کی تحریکوں میں سے ایک ہے۔
1990 کی دہائی میں، سوویت افواج کے انخلا کے بعد، کچھ پناہ گزین افغانستان واپس لوٹے۔ تاہم، 1995 میں طالبان کے ظہور کے ساتھ، ایک اور بے گھر ہونے کی لہر آئی۔ عدم استحکام 2000 کی دہائی میں بھی جاری رہا؛ 2001 میں امریکی قیادت میں نیٹو کی افواج کی مداخلت نے دوبارہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو جنم دیا۔ ہر نئی حکومت کی تبدیلی یا تنازعے نے مزید افغانوں کو پاکستان اور دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
Pپاکستان کا افغان پناہ گزینوں کے لیے بے مثال تعاون
ان ہنگامہ خیز دہائیوں کے دوران، پاکستان افغان پناہ گزینوں کے لیے سب سے مستقل اور فراخ دل میزبان رہا ہے۔ دیگر علاقائی ممالک کے برعکس، پاکستان نے پاک-افغان سرحد کو کھلا رکھا، لوگوں کو ویزا کی پابندیوں کے بغیر عبور کرنے کی اجازت دی۔ پناہ گزین کیمپ خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی جیسے شہری مراکز میں قائم کیے گئے، جہاں پناہ گزینوں کو پناہ اور بنیادی خدمات فراہم کی گئیں۔
پاکستان کی سخاوت صرف انسانی امداد تک محدود نہیں رہی۔ افغان پناہ گزینوں کو آزادانہ نقل و حرکت، تعلیم تک رسائی اور کاروبار و روزگار کے مواقع دیے گئے۔ اس منفرد نقطہ نظر نے افغان کمیونٹیز کو خود مختار بنانے میں مدد کی۔ کئی پناہ گزینوں نے:
- کامیاب چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار شروع کیے
- پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی
- صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور عوامی انتظامیہ جیسے شعبوں میں بااثر پیشہ ور بنے
آج، افغان حکومت کے متعدد افسران اور سول سرونٹس سابق پناہ گزین ہیں جو پاکستانی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری اور بڑھتی ہوئی کشیدگیاں
تاہم، ایک بڑی پناہ گزین آبادی کی مسلسل موجودگی نے پاکستان کے لیے پیچیدہ سماجی و اقتصادی چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، قومی سلامتی کے خدشات اور وسائل کی کمی کے باعث، پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ اور باعزت واپسی کے لیے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
بدقسمتی سے، اس فیصلے پر پناہ گزین کمیونٹی کے کچھ افراد کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی دہائیوں پر محیط حمایت کے باوجود، بعض پناہ گزینوں نے عوامی تنقید کی، جو اکثر شکریے کی بجائے دشمنی پر مبنی زبان استعمال کرتی ہے۔ اس سے پاکستانی عوام اور پالیسی سازوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی پیدا ہوئی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے اراکین باقاعدگی سے سخت امیگریشن کنٹرول نافذ کرتے ہیں۔ یہ ممالک اقتصادی صلاحیت اور قومی مفاد کی بنیاد پر پناہ گزینوں کو محدود کرتے ہیں۔ پھر جب ایک ترقی پذیر ملک جیسے پاکستان ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے اکثر بین الاقوامی تنقید اور جانبدارانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
افغانستان سے ذمہ داری اور قیادت کی اپیل
افغان حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ:
- واپس آنے والے خاندانوں کو ہنگامی رہائش اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں
- تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور مقامی حکمرانی جیسے عوامی خدمات کو مضبوط کیا جائے
- بین الاقوامی ایجنسیوں اور عطیہ دہندگان کے ساتھ تعاون کر کے دوبارہ آبادکاری کی کوششوں کے لیے فنڈنگ حاصل کی جائے
یہ اقدامات نہ صرف واپس آنے والوں کی مدد کریں گے بلکہ قومی یکجہتی، استحکام اور اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دیں گے۔
افغان مہاجرین کی بحالی: خودمختاری اور ترقی کی علامت
افغان مہاجرین کی کامیاب بحالی بین الاقوامی برادری کے لیے ایک طاقتور پیغام ہوگی: افغانستان اپنے عوام کو مرکز میں رکھتے ہوئے تعمیر نو کے لیے تیار ہے۔ یہ واپس آنے والے شہری ایک ہنر مند، مضبوط اور قابل آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں—وہ انسانی سرمایہ جو معیشت کو زندہ کرنے اور پرامن معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے درکار ہے۔
مزید برآں، اگر افغانستان اپنے عوام کی بہبود کے لیے اپنی عہد بندی کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ عالمی شراکت داروں کا احترام اور تعاون حاصل کرے گا۔ مہاجرین کی بحالی کو نہ صرف ایک انسانی فرض کے طور پر بلکہ قومی ترقی اور سفارتی ساکھ کی بنیاد کے طور پر ترجیح دی جانی چاہیے۔
آخری بات
افغان مہاجرین نے دہائیوں سے استحکام کا انتظار کیا ہے۔ پاکستان نے اس ذمہ داری کو بے مثال سخاوت سے اٹھایا۔ اب یہ مشعل افغانستان کے حوالے کرنی ہوگی۔ اپنے عوام کو بحال کرنا محض ایک فرض نہیں—بلکہ قیادت کی ایک اہم آزمائش ہے۔ اگر افغانستان اس چیلنج کو قبول کرتا ہے، تو یہ نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ عالمی سطح پر اپنا جائز مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔
ڈس کلیمر: اس مضمون میں پیش کیے گئے خیالات مصنف کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ اس پلیٹ فارم کے نقطہ نظر کی عکاسی کریں۔