افغانستان نے ایک بڑے سفارتی اقدام میں ایک سینئر بھارتی انٹیلی جنس افسر کو ناپسندیدہ شخص قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا ہے۔
یہ اقدام 17 اگست کو اُس وقت سامنے آیا جب طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے الزام عائد کیا کہ بھارتی افسر کابل میں طالبان مخالف عناصر کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کر رہا تھا تاکہ انہیں دوبارہ سے منظم کرے۔
ذرائع کے مطابق ہریش کمار، جو بھارتی سفارتخانے میں لیزان آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، کو 24 گھنٹے میں افغانستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ افغان حکام نے ان کے پاسپورٹ پر باضابطہ طور پر نشاندہی بھی کردی ہے۔

الزامات اور خفیہ ملاقاتیں
اطلاعات کے مطابق ہریش کمار، جو بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے رہائشی ہیں، کابل، دہلی اور قطر کے درمیان سفر کر کے کئی طالبان مخالف رہنماؤں سے ملے۔
پندرہ اگست کو افغان انٹیلی جنس نے کارروائی کرتے ہوئے کابل کے علاقے شہر نو کے ایک ریستورنٹ پر چھاپہ مارا، جہاں کمار مخالف طالبان رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ کارروائی کے دوران افغان رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔
اگلے دن طالبان حکومت نے بھارتی سفارتخانے کے حکام کو طلب کر کے باضابطہ طور پر ہریش کمار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ وہ 17 اگست کو دہلی روانہ ہوگئے۔
سفارتی اثرات
کسی اعلیٰ سطح کے انٹیلی جنس افسر کو ملک بدر کرنا ایک غیر معمولی اور انتہائی اقدام سمجھا جاتا ہے، جو طالبان حکومت کی بھارت کے اقدامات پر سخت تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس واقعے کے دونوں ممالک کے تعلقات پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارت نے کابل سے محدود سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں تاکہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھ سکے۔
بھارت کا ردعمل
بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس واقعے پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
دیکھیں: افغانستان نے دو ماہ قید کے بعد روسی محقق کو جذبی خیر سگالی کے تحت رہا کر دیا