ایک لکیر جو 1893 میں کھینچی گئی، آج بھی دلوں اور سیاست کو تقسیم کر رہی ہے۔ ڈیورنڈ لائن ایک لکیر جو 1893 میں کھینچی گئی، آج بھی دلوں اور سیاست کو تقسیم کر رہی ہے۔ درۂ ڈیورنڈ تاریخ، شناخت اور بداعتمادی کی سرحد بنی ہوئی ہے۔
پاک افغان سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، 2,640 کلومیٹر طویل ہے اور پاکستان کو افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ یہ سرحد ایک بار پھر کشیدگی کا مرکز بن گئی ہے کیونکہ طورخم سے چمن تک گزرگاہیں جھڑپوں اور سفارتی تناؤ کے باعث بند ہیں۔ پاکستان اسے “بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد” قرار دیتا ہے، جبکہ افغانستان اسے “نوآبادیاتی تقسیم” سمجھتا ہے جو پشتون اور بلوچ قبائل کے صدیوں پرانے روابط کو توڑتی ہے۔
تاریخی پس منظر
ڈیورنڈ لائن کی بنیاد 1893 میں رکھی گئی، جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان نے برطانوی ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ سر مارٹیمر ڈیورنڈ سے سرحدی معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ دونوں فریقین کے درمیان انتظامی حدود طے کرنے کے لیے تھا، نہ کہ سیاسی خودمختاری کے لیے۔
بعد ازاں، ڈومندی-چمن، کوہِ ملک سیاح، سکرم-لارم اور وزیرستان جیسے علاقوں میں سرحدی نشانات لگائے گئے۔ تاہم افغان اعتراضات اور معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باعث تنازع برقرار رہا۔ 1905 تک بیشتر نشاندہی مکمل ہو چکی تھی اور واخان کوریڈور کو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان بفر زون کے طور پر شامل کیا گیا۔
افغان مؤقف
افغانستان کا دعویٰ ہے کہ درۂ ڈیورنڈ “زبردستی” نافذ کیا گیا اور یہ معاہدہ 100 سال بعد “خود بخود ختم” ہو گیا۔ افغان قوم پرستوں کے مطابق یہ لکیر پشتون خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، جس سے خاندان، قبائل اور تجارتی راستے الگ ہو گئے۔
1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ تب سے ہر افغان حکومت، چاہے بادشاہت ہو، جمہوریت یا طالبان، نے درۂ ڈیورنڈ کو “علیحدگی کی لکیر” قرار دیا ہے۔
سابق سفیر ابرار حسین نے ہندوکش ٹریبیون نیٹ ورک سے گفتگو میں کہا کہ “یہ مسئلہ افغانستان میں سیاسی مفاد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، زمینی یا قانونی بنیاد پر نہیں۔”
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ “یہ دعویٰ کہ معاہدہ 100 سال بعد ختم ہو گیا، بالکل غلط ہے، کیونکہ نہ تو معاہدے میں ایسا کوئی شق موجود ہے اور نہ ہی قانونی بنیاد۔”
پاکستان کا مؤقف
پاکستان کے مطابق، درۂ ڈیورنڈ بین الاقوامی قوانین کے مطابق قانونی اور مستقل سرحد ہے۔ ویانا کنونشن برائے ریاستی جانشینی (1978) اور پیکٹا سنٹ سروانڈا جیسے اصول اس کی توثیق کرتے ہیں۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغانستان کا انکار صرف سیاسی مفاد کے لیے ہے۔
ایک سینئر پاکستانی سیکیورٹی افسر کے مطابق، “ ڈیورنڈ لائن اتنا ہی حتمی ہے جتنا کوئی دوسری بین الاقوامی سرحد۔ پاکستان کو اسے محفوظ بنانے کا مکمل حق حاصل ہے۔”
نئے اقدامات
پاکستان نے حالیہ برسوں میں 98 فیصد سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کیا ہے تاکہ اسمگلنگ اور دہشت گردی کو روکا جا سکے۔ تاہم افغان سرحدی اہلکاروں نے کئی مقامات پر مزاحمت کی، جس سے طورخم، کرم اور چمن میں جھڑپیں ہوئیں اور تجارت متاثر ہوئی۔
جغرافیہ سے بڑھ کر ایک علامت
ڈیورنڈ لائن اب صرف جغرافیائی حد نہیں، بلکہ قومی بیانیوں اور تاریخی زخموں کی علامت بن چکا ہے۔
جب تک کابل اور اسلام آباد ماضی کو حقیقت کے ساتھ نہیں جوڑتے، یہ لکیر صرف نقشے پر نہیں بلکہ سیاست، خون اور بداعتمادی میں بھی کھینچی جاتی رہے گی۔ تاریخ، شناخت اور بداعتمادی کی سرحد بنی ہوئی ہے۔
پاک افغان سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، 2,640 کلومیٹر طویل ہے اور پاکستان کو افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ یہ سرحد ایک بار پھر کشیدگی کا مرکز بن گئی ہے کیونکہ طورخم سے چمن تک گزرگاہیں جھڑپوں اور سفارتی تناؤ کے باعث بند ہیں۔ پاکستان اسے “بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد” قرار دیتا ہے، جبکہ افغانستان اسے “نوآبادیاتی تقسیم” سمجھتا ہے جو پشتون اور بلوچ قبائل کے صدیوں پرانے روابط کو توڑتی ہے۔
دیکھیں: اگست 2021 کے بعد سے افغان میڈیا شدید پابندیوں کا شکار، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ