دنیا کی سیاست ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑی ہے، جہاں طاقت کے توازن کو بندوقوں یا میزائلوں سے نہیں بلکہ نایاب معدنیات سے ناپا جا رہا ہے۔ عالمی معیشت کی بنیادیں ہل چکی ہیں اور سپر پاورز کی رقابت اب محض سفارتی یا فوجی نہیں بلکہ تکنیکی و معدنی ہے۔ آغاز ہوا امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے سے جب انہوں نے چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑتے ہوئے بے مثال محصولات عائد کیے۔ ان اقدامات نے نہ صرف عالمی معیشت میں ہلچل مچا دی بلکہ دنیا کی نظریں ایک نئے معاشی معرکے پر جم گئیں جس نے جغرافیائی معیشت کے مقابلے میں جغرافیائی سیاست کو فوقیت دے دی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے نے چینی قیادت کو کھلے چیلنج کے طور پر سامنے لا کھڑا کیا۔ چین نے اس تجارتی یلغار کا جواب نایاب ارضی عناصر یعنی ’’ ریئر ارتھ ایلیمینٹس‘‘ پر کنٹرول سخت کر کے دیا۔
یہ وہ دھاتیں ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ہر شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان پر چین کا قریباً نوّے فیصد اجارہ ہے یعنی دنیا کے بیشتر صنعتی ممالک ان کے لیے چین پر منحصر ہیں۔ یہ معدنیات وہ نیا ہتھیار ہیں جن سے مستقبل کی معاشی جنگیں لڑی جائیں گی اور انہی پر آئندہ عالمی طاقتوں کی سمت کا تعین ہوگا۔ جب امریکہ نے چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کیے تو چین نے بھی غیر معمولی ردعمل دیا۔ اس نے سترہ نایاب دھاتوں میں سے بارہ کی برآمد پر پابندی لگا دی جس نے امریکی معیشت کے ان حصوں کو جھٹکا دیا جو دفاعی صنعت، سیمی کنڈکٹرز اور برقی آلات پر انحصار کرتے ہیں۔
ان پابندیوں سے جدید ہتھیاروں سے لے کر مصنوعی ذہانت کے چپس تک قریباً تمام ٹیکنالوجی متاثر ہوئی۔ یہ اقدام عالمی سپلائی چین کے لیے ایک غیر متوقع دھچکا تھا۔ دنیا بھر کے کارخانے جو مختلف ممالک میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اچانک تعطل کا شکار ہو گئے۔ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی یہ غیر یقینی کیفیت اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اب ’’ نایاب معدنیات کی سیاست‘‘ کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ ان عناصر کے بغیر اسمارٹ فون، الیکٹرک گاڑیاں، جنگی جہاز، راکٹ حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت کے نظام بھی نامکمل ہیں۔ چین نے ان معدنیات کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ان کی ریفائننگ میں بھی مکمل مہارت حاصل کر لی ہے۔ یہی تکنیکی برتری اب اس کی سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے۔
امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ نایاب معدنیات امریکہ، روس، بھارت، پاکستان، برازیل، ویتنام اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں موجود ہیں مگر ان کی پراسیسنگ اور استعمال کے قابل شکل میں لانے کی صلاحیت صرف چین کے پاس ہے۔ یہی برتری چین کو ایک ایسی معاشی طاقت میں تبدیل کر رہی ہے جو مستقبل کے صنعتی نظام کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عالمی صنعتی نظام دراصل اس بنیاد پر قائم ہوا تھا کہ ہر ملک اپنی مہارت کے مطابق کسی ایک حصے کی تیاری کرے اور پھر بین الاقوامی تجارت کے ذریعے مصنوعات کی تکمیل ہو۔ لیکن نایاب معدنیات کی ریفائننگ کے عمل نے اس توازن کو یکسر بدل دیا ہے۔
چین نے اس صلاحیت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب امریکہ نے چینی مصنوعات پر محصولات عائد کیے تو بیجنگ نے جوابی وار کے طور پر ان دھاتوں کی برآمدات محدود کر دیں، جن کے بغیر امریکی صنعت کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا۔ امریکی انتظامیہ نے اس دبائو کے جواب میں نئی درآمدی پالیسیوں اور متبادل سپلائی چینز کے قیام کی کوشش کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ بیٹری، سیمی کنڈکٹرز، لیپ ٹاپ، موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر الیکٹرانک اشیا میں چین کی برتری برقرار ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے قریبی اتحادی جنوبی کوریا کو بھی امریکی دبائو کے تحت چین کو چپس کی برآمدات کم کرنا پڑیں حالانکہ وہ چین کی منڈی پر بھاری انحصار کرتا ہے۔
اسی طرح ویتنام نے بھی ’’ چپ اتحاد‘‘ میں شامل ہو کر چین کے خلاف صف بندی کر لی ہے۔ یہ سب اقدامات عالمی معیشت میں مزید غیر یقینی پیدا کر رہے ہیں۔ نیٹو ممالک امریکی اثر میں آ کر چین پر اقتصادی دبائو بڑھا رہے ہیں مگر ماہرین کے مطابق اس حکمتِ عملی کا نقصان خود مغرب کو زیادہ پہنچے گا۔ کیونکہ اگر چین سپلائی چین کے کسی ایک حصے میں بھی رخنہ ڈال دے تو عالمی ٹیکنالوجی کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی کے بعد دنیا بھر کی بڑی ٹیک کمپنیاں متبادل ذرائع تلاش کر رہی ہیں۔ امریکہ نے افریقہ، لاطینی امریکہ اور آسٹریلیا میں معدنی ذخائر کی تلاش کا آغاز کیا ہے لیکن ان منصوبوں کو عملی شکل دینے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ دوسری جانب چین نے پہلے ہی سے نایاب معدنیات کے ذخائر پر طویل المدت کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے افغانستان اور افریقہ میں سرمایہ کاری کے منصوبے مستقبل میں اسے مزید مضبوط بنا دیں گے۔ عالمی سیاست میں طاقت کا نیا پیمانہ اب فوجی نہیں بلکہ تکنیکی ہے۔ جو ملک نایاب معدنیات، سیمی کنڈکٹرز اور بیٹریوں پر قابض ہے وہی آئندہ دہائیوں میں دنیا کی سمت طے کرے گا۔ اسی حقیقت نے امریکہ کو بے چین کر رکھا ہے کیونکہ وہ پہلی بار خود کو تکنیکی لحاظ سے کسی حریف کے مقابل دیکھ رہا ہے۔
روس بھی اس نئے کھیل میں ایک اہم فریق بن چکا ہے۔ اگرچہ وہ نایاب معدنیات کے لحاظ سے چین جیسی پوزیشن نہیں رکھتا، مگر توانائی اور گیس کی فرا ہمی کے ذریعے یورپ پر اپنا دبائو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یورپ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور توانائی بحران نے مغربی اتحاد کو کمزور کر دیا ہے جس سے چین اور روس کے لیے عالمی اثر و رسوخ بڑھانے کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ تمام تبدیلیاں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دنیا ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں طاقت کی بنیاد ٹیکنالوجی، معدنیات اور صنعتی خودکفالت پر ہوگی۔
سرد جنگ کے دور کی طرح اب نظریاتی نہیں بلکہ ’’ وسائل پر مبنی سرد جنگ‘‘ شروع ہو چکی ہے۔ اس نئے منظرنامے میں پاکستان کے لیے بھی امکانات اور خطرات دونوں موجود ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نایاب معدنیات کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان، گلگت بلتستان اور چترال کے پہاڑی سلسلے ان قیمتی دھاتوں سے مالا مال ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان نے اب تک ان وسائل کی کھوج اور ترقی پر وہ توجہ نہیں دی جو ضروری تھی۔ اگر پاکستان چین کے اشتراک سے ان ذخائر کی ترقی کرے تو وہ عالمی سپلائی چین میں ایک اہم فریق بن سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس عالمی کشمکش میں غیر جانب داری برقرار رکھے۔ چین کے ساتھ اس کی شراکت دیرپا اور آزمودہ ہے جب کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اب پاکستان کو متوازن پالیسی اپنانا ہوگی۔
اگر وہ مکمل طور پر چین کی سمت جھک گیا تو امریکہ کی منڈیاں اور سرمایہ کاری کے مواقع کم ہو سکتے ہیں اور اگر وہ امریکہ کے دبائو میں آ گیا تو سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے متاثر ہوں گے۔ پاکستان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت اور قدرتی وسائل کو ایک تزویراتی طاقت کے طور پر استعمال کرے۔ اگر وہ نایاب معدنیات کی تلاش، پراسیسنگ اور برآمد کے لیے شفاف پالیسی وضع کرے غیر ملکی سرمایہ کاری کو سائنسی خطوط پر لائے اور چین کے تجربے سے فائدہ اٹھائے تو وہ نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی ایک منفرد مقام حاصل کر سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم نے حسبِ روایت سستی پالیسی اپنائی، منصوبے کاغذوں سے آگے نہ بڑھے اور سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو عالمی منڈی ہمیں مکمل طور پر نظرانداز کر دے گی۔ دنیا تیزی سے ایک نئی سمت کی طرف جا رہی ہے جہاں خام مال کی قیمت اس کے استعمال کی صلاحیت سے جڑی ہوئی ہے۔ امریکہ اور چین کی رقابت نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف امریکی اتحاد ہے جو چین کے اثر کو محدود کرنا چاہتا ہے دوسری طرف چین ہے جو خاموشی سے اپنے وسائل اور صنعتی طاقت کے ذریعے عالمی معیشت کو گرفت میں لے رہا ہے۔ اس ماحول میں کوئی بھی ملک غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مستقبل کی دنیا میں محض تماشائی رہے گا یا ایک فعال فریق۔
دنیا کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ جغرافیائی سیاست اور معیشت کے درمیان توازن قائم کرے۔ اگر طاقت کے یہ کھیل اسی شدت سے جاری رہے تو عالمی معیشت مزید غیر مستحکم ہو جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی رہنما بالخصوص چین اور امریکہ تجارتی مذاکرات کے ذریعے نئے ضابطے وضع کریں تاکہ عالمی سپلائی چین بحال ہو اور معیشت دوبارہ مستحکم ہو سکے۔ نایاب معدنیات کی یہ جنگ محض دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ پوری دنیا کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ جو ممالک اس نئے کھیل کے اصول سمجھ گئے، وہ آنے والی صدی کے فاتح ہوں گے اور جو خاموش تماشائی بنے رہے وہ تاریخ کے حاشیے پر جا کھڑے ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہی لمحہ فیصلہ ہے کہ وہ خود کو کس صف میں کھڑا کرتا ہے، وسائل کے مالکوں کی صف میں یا ان کے محتاجوں کی۔