اگر دنیا نے آج افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو کل دہشت گردی پاکستان کے بعد کی یہ آگ انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔
پاکستان بارہا شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ موقف پیش کر چکا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر گروہ افغان سرزمین سے منظم حملے کرتے ہیں۔ اگر کابل واقعی اپنی سرزمین پر کنٹرول رکھتا ہے، تو پھر ان گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں کیوں برقرار ہیں؟
متقی نے کہا کہ بھارت نے افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو منصوبے ادھورے رہ گئے تھے، انہیں مکمل کیا جائے گا اور جو شروع نہیں ہو سکے، ان پر دوبارہ کام کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے جاتی عمرہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی، جس میں پاک۔افغان سرحدی کشیدگی اور دیگر ملکی امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے بعد دونوں ممالک میں آج تجارت مکمل طور پر معطل ہے۔ طورخم، خرلاچی، انگور اڈہ اور غلام خان سمیت تمام راستے تجارت اور آمد و رفت کیلئے مکمل طور پر بند ہیں۔
پاکستانی عہدیدار نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا ریکارڈ واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان نے دہشت گردی کے تمام مظاہر کا مقابلہ کیا ہے، جبکہ طالبان خود دہشت گرد گروہوں کو پناہ دیتے رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر داعش کے ٹھکانوں کو نظر انداز کر رہا ہے، جہاں سے افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس نے نہ صرف افغان حکومت کو کمزور کیا بلکہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔
طالبان وفد نے نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو داخل ہونے سے روک دیا، جو نہ صرف بھارتی آئین کی روح کے منافی تھا بلکہ مودی حکومت کے لیے شدید سبکی کا باعث بھی بنا۔