بیس برس گزر گئے لیکن آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے لوگ آج بھی اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں۔۔۔کتنے ہی انسان ،کتنے ہی گھر ،تعلیمی ادارے ،دفاتر صفحہ ہستی سےمٹ گئے جب 8 اکتوبر 2005 صبح 8:52 منٹ پہ زمین اپنی پوری شدت سے ہلا دی گئ۔
جی ہاں! پاکستان کے شمالی علاقہ جات ،آزاد جموں و کشمیر اور دارالحکومت اسلام آباد سمیت مختلف علاقوں میں قیامت کا سماں تھا۔ 7.6 کی شدت کے اس زلزلے نے پاکستان کو ہلا کے رکھ دیا جب رمضان کا پہلا عشرہ تھا اور سب اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک زلزلے نے انہیں آ لیا۔ یہ زلزلہ دنیا کی تاریخ میں آنے والے زلزلوں میں اپنی شدت کے لحاظ سے چوتھے نمبر پہ ہے کیونکہ زلزلہ پہاڑی علاقوں میں آیا تھا اس لیے نقصان کئ گناہ بڑھ چکا تھا ۔لینڈ سلائیڈنگ اور رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے بھی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے میں 88 ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ 30 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ۔
تعلیمی ادارے منہدم ہونے کے باعث 12000 طلبہ و طالبات ہلاک ہوگئے جبکہ ہزاروں معذور و بے گھر ۔ آزاد کشمیر کے علاقے مظفر آباد ،باغ اور راولا کوٹ سب سے زیادہ متاثر ہوئے جبکہ بالاکوٹ شہرمکمل طور پہ ختم ہوگیا۔ سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں ،پل ،اور مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ۔
زلزلے کے بعد پاکستان کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا تھا ایک طرف سخت پہاڑی علاقے دوسری طرف دشوار راستے اور تیسری جانب مواصلات کا درہم برہم نظام جہاں سڑکیں اور رابطہ پل بھی ختم ہوچکے ہوں وہاں نقصانات کا تخمینہ لگانا اور امدادی کارراوئیاں کرنا بے حد مشکل ہوگیا تھا ۔ وہیں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مناسب تیاری نہیں ہے یہی وجہ یے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
فوری ریلیف اور بحالی آپریشن کا آغاز کیا گیا زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا جہاں فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے۔ متاثرین کے لیے خیمہ بستیاں آباد کی گئیں خوراک ،ادویات اور کپڑوں کا انتظام کیا گیا جبکہ عالمی برادری نے بھی دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور امدادی کاروائیوں میں حصہ ڈالا ۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کام کرنے والے مختلف فلاحی اداروں نے بھی بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا ملک بھر سے لوگوں نے لاکھوں روپے امداد جمع کروائ جبکہ بیشمار لوگوں نے رضاکارانہ طور پہ بحالی کے کاموں میں حصہ لیا ،خیمہ بستیوں میں اسکولز کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
جہاں جسم کے زخم بھر رہے تھے وہیں روح چھلنی تھی اپنے پیاروں سے بچھڑ جانا ،لمحوں میں اپنی چھت سے محروم ہوجانا یہ وہ زخم تھے جنہیں بھرنے میں وقت لگتا یے اس کے لیے بھی بنائے گئے ۔ آج بیس برس گزرنے کے باوجود راولاکوٹ ،باغ ،مظفرآباد اور بالاکوٹ کے شہری 8 اکتوبر کے دن کو یاد کرکے غم زدہ ہوجاتے ہیں تاہم وہ یہ عزم بھی کرتے ہیں کہ یہ دن ان کے لیے تجدید عہد ،قربانی اور عزم کا دن بھی یے پھر سے جی اٹھنے کا دن یے ۔
دیکھیں: احسان اللہ احسان اور عادل راجہ کا اسپیس سیشن – اظہارِ رائے یا دہشت گرد بیانیے کی آبیاری؟