ہنگو بم دھماکے میں ایس پی اسد زبیر، ان کے گن مین داؤد اور ڈرائیور عاطف جامِ شہادت نوش کرگئے

October 24, 2025

علی ترین نے کہا ہے کہ پی سی بی اور پی ایس ایل مینجمنٹ نے انہیں ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا، جس میں مذکور تھا کہ وہ بورڈ کے خلاف تنقیدی بیانات واپس لیتے ہوئے معافی مانگیں

October 24, 2025

سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی کے نتیجے میں 8 دہشت گردوں ہلاک اور 5 زخمی ہوئے

October 24, 2025

معاہدے کے مطابق قطر پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا

October 24, 2025

ماہرین کے مطابق یہ انکشاف اس حقیقت کو مزید تقویت دیتا ہے کہ افغانستان نہ صرف دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے بلکہ وہاں سے پاکستان کے خلاف منظم کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔

October 24, 2025

پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے مگر اشرف غنی کی حکومت نے ہمیشہ بھارت کے اشاروں پر عمل کیا۔2014 کے بعد جب امریکا نے اپنی فوجی موجودگی کم کی تو افغانستان میں طالبان نے دوبارہ طاقت حاصل کرنا شروع کی۔

October 24, 2025

پسنی بندرگاہ سے حالیہ خبروں کی حقیقت

ایک ممتاز مغربی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کسی نئی بندرگاہ کی پیشکش کر رہا ہے، اور اس تناظر میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی تشویش کا بھی حوالہ دیا گیا۔ تاہم، یہ خبر متعدد حوالوں سے غلط فہمی، قیاس آرائی اور غیر مصدقہ بیانیے پر مبنی ہے۔

1 min read

ایک ممتاز مغربی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کسی نئی بندرگاہ کی پیشکش کر رہا ہے، اور اس تناظر میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی تشویش کا بھی حوالہ دیا گیا۔ تاہم، یہ خبر متعدد حوالوں سے غلط فہمی، قیاس آرائی اور غیر مصدقہ بیانیے پر مبنی ہے۔

سب سے بنیادی اور اہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے پسنی میں کسی نئی بندرگاہ کی نہ تو کوئی پیشکش کی گئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز سرکاری سطح پر زیرِ غور آئی ہے۔

October 6, 2025

سر زمین پاکستان جو ایک طرف تو چار صوبوں پر مشتمل مختلف تہذیبی، ثقافتی ، لسانی اور معاشرتی رنگوں سے بھرپور ہے اور دوسری جانب بلند و بالا پہاڑوں، ریگزاروں، میدانوں، وسیع و عریض سبزہ زاروں ، گلیشئرز اور سنگلاخ پہاڑوں سے اس خطے کو مزین کئے ہوئے ہے۔ اس پر مستزاد جھیلوں، ندیوں، آبشاروں ، دریاؤں ، سمندری بندرگاہوں اور معدنی وسائل نے نہ صرف اس ملک کو خوبصورتی اور دلکشی سے ہمکنار کیا ہے بلکہ معاشی طور خود کفیل ہونے میں بھی خاطر خواہ مدد فراہم کی ہے۔ مگر پاکستان نے ہمیشہ اپنے کسی بھی شعبے میں نئے منصوبہ جات پر کام کرنے سے پہلے ادارہ جاتی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی ہے۔ تاہم چند شرپسند عناصر پھر بھی اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ اس کے وقار اور تشخص کو بین الاقوامی سطح پر متاثر کر کے ملکی ساکھ اور شناخت کو کمزور بنایا جا سکے ۔
گزشتہ چند روز میں بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے ساحلی شہر پسنی سے متعلق ایک خبر نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔

ایک ممتاز مغربی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کسی نئی بندرگاہ کی پیشکش کر رہا ہے، اور اس تناظر میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کی تشویش کا بھی حوالہ دیا گیا۔ تاہم، یہ خبر متعدد حوالوں سے غلط فہمی، قیاس آرائی اور غیر مصدقہ بیانیے پر مبنی ہے۔ یہاں ان تمام نکات کا تنقیدی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس مبینہ ’’پسنی بندرگاہ منصوبے‘‘ سے منسلک کیے جا رہے ہیں، اور واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔

سب سے بنیادی اور اہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے پسنی میں کسی نئی بندرگاہ کی نہ تو کوئی پیشکش کی گئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز سرکاری سطح پر زیرِ غور آئی ہے۔ کسی بھی ریاستی پالیسی کی تشکیل کا ایک باقاعدہ اور طے شدہ عمل ہوتا ہے، جس میں وزارتیں، ریگولیٹری ادارے اور کابینہ سطح کے فورمز شامل ہوتے ہیں۔ اس پورے عمل میں پسنی بندرگاہ کا کوئی تذکرہ نہیں آیا۔ لہٰذا، کسی نجی ملاقات یا غیر رسمی گفتگو کو ریاستی پالیسی کے مترادف قرار دینا صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔


متذکرہ خبر میں ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ جب خود خبر میں اس منصوبے کو ’’غیر رسمی‘‘ اور ’’نجی‘‘ قرار دیا گیا، تو پھر امریکی انتظامیہ سے سرکاری ردعمل لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر منصوبہ سرے سے موجود ہی نہیں، تو وائٹ ہاؤس کی تردید خود بخود غیر متعلقہ بن جاتی ہے۔ یہی تضاد خبر کی ادارتی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ایک جانب اس خیال کو ’’نجی تجویز‘‘ کہا جا رہا ہے، اور دوسری جانب اسے ایسی سنجیدہ سطح پر لے جایا جا رہا ہے جیسے کہ وہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہو۔پاکستان میں آئے روز مختلف نجی کمپنیاں، سرمایہ کار اور بین الاقوامی ادارے مختلف تجاویز اور منصوبوں پر بات کرتے ہیں۔

ان میں سے کچھ منصوبے سرکاری سطح تک پہنچتے ہیں، کئی ابتدائی مرحلے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں، اور کچھ برسوں بعد نتیجہ خیز بن پاتے ہیں ۔ پسنی سے متعلق جو بھی بات چیت ہوئی، وہ مکمل طور پر نجی اور غیر رسمی نوعیت کی تھی۔ حکومت پاکستان نے نہ تو اس کی منظوری دی، نہ اس پر کوئی غور و خوض کیا، اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بین الحکومتی رابطہ ہوا۔ یہ بات نہایت وضاحت سے سمجھنی چاہیے کہ نجی کاروباری گفتگو اور ریاستی خارجہ یا سکیورٹی پالیسی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔


اس کے علاوہ حیران کن بات یہ ہے کہ خبر میں جس شخصیت کو ’’چیف آف آرمی سٹاف کے مشیر‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا، اس حوالے سے بھی صحافتی ذمہ داری کا فقدان نظر آیا۔ پاکستان میں افواجِ پاکستان کے حوالے سے معلومات کی تصدیق کا واحد معتبر ذریعہ آئی ایس پی آر ہے۔ کسی فرد کو بغیر تصدیق ’’فوجی مشیر‘‘ قرار دینا نہ صرف غلط معلومات پھیلانے کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ ملکی حساس اداروں سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔مزید برآں کہ اس خبر میں چین کا حوالہ دے کر اسے پاکستان کی تزویراتی توازن کی پالیسی سے جوڑنے کی کوشش بھی خاصی غیر منطقی اور غیر ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول توازن اور مفاد پر مبنی سفارت کاری ہے۔


ہندوستان چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے، روس سے تیل خریدتا ہے، امریکہ سے شراکت داری کرتا ہے، ایران اور اسرائیل سے بھی رابطے رکھتا ہے، مگر اسے ’’تضاد‘‘ کے بجائے ’’سٹریٹیجک خودمختاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی کسی نجی تجویز پر اتنا شور و غوغا برپا کیا جائے؟ پاکستان کے موجودہ وعدے جیسے کہ سی پیک مکمل طور پر برقرار ہیں، اور کسی نئے منصوبے کی صورت میں بھی تمام مراحل شفاف ادارہ جاتی طریقہ کار کے تحت طے کیے جائیں گے۔


پاکستان میں کوئی بھی سٹریٹیجک یا معاشی منصوبہ نجی ملاقاتوں میں نہیں بنتا۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ ادارہ جاتی عمل ہوتا ہے۔ ابتدائی تجویز کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، متعلقہ وزارتوں کی رائے لینے کے بعد سلامتی اور قومی مفاد کے اداروں کی شمولیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کابینہ یا متعلقہ حکومتی فورمز پر منظوری لی جاتی ہے ، جہاں ضروری ہو پارلیمانی نگرانی سے استفادہ کیا جاتا ہے  اور جب تک یہ تمام مراحل مکمل نہ ہوں، کوئی بھی تجویز پالیسی نہیں بن سکتی۔درحقیقت جو کچھ جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ صرف اور صرف نجی سطح کی غیر رسمی گفتگو تھی جو نہ حکومت پاکستان نے ایسا کوئی منصوبہ بنایا، نہ وائٹ ہاؤس یا کسی اور ملک سے ایسی کوئی بات چیت ہوئی۔ ریاستی ادارے ایسی کسی تجویز سے نہ صرف لاعلم ہیں بلکہ اس پر کوئی غور و فکر بھی نہیں ہوا۔ اگر مستقبل میں کوئی ایسی تجویز آئے گی، تو وہ مربوط، شفاف اور ادارہ جاتی طریقے سے آگے بڑھے گی۔


المختصر! پاکستان کے حساس قومی امور پر رپورٹنگ کرتے وقت نہایت ذمہ داری، احتیاط اور تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کو بھی چاہیے کہ قیاس آرائی پر مبنی رپورٹس شائع کرنے کے بجائے، مصدقہ ذرائع سے معلومات حاصل کرے۔ نجی سطح کی بات چیت کو ریاستی پالیسی کا رنگ دینا نہ صرف صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ غیر ضروری افواہوں کو جنم دیتا ہے۔ پسنی بندرگاہ سے متعلق خبریں غیر حقیقی، غلط طور پر منسوب اور گمراہ کن ہیں۔پاکستان کی خودمختار پالیسی سازی، ادارہ جاتی عمل اور اس کی تزویراتی حکمت عملی کے حوالے سے غلط بیانی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

نوٹ: یہ آرٹیکل 6 اکتوبر 2025 کو روزنامہ نئی بات میں شائع ہوا تھا۔

دیکھیں: پسنی پورٹ کے حوالے سے فنانشل ٹائمز کے دعوؤں کو پاکستانی حکام نے سختی سے مسترد کر دیا

متعلقہ مضامین

ہنگو بم دھماکے میں ایس پی اسد زبیر، ان کے گن مین داؤد اور ڈرائیور عاطف جامِ شہادت نوش کرگئے

October 24, 2025

علی ترین نے کہا ہے کہ پی سی بی اور پی ایس ایل مینجمنٹ نے انہیں ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا، جس میں مذکور تھا کہ وہ بورڈ کے خلاف تنقیدی بیانات واپس لیتے ہوئے معافی مانگیں

October 24, 2025

سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی کے نتیجے میں 8 دہشت گردوں ہلاک اور 5 زخمی ہوئے

October 24, 2025

معاہدے کے مطابق قطر پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا

October 24, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *