غزہ میں دو سالہ خونریز جنگ کے بعد بالآخر امن و امن کی ایک امید نظر آنے لگی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس نے پہلے مرحلے میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ مذکورہ اعلان کو عالمی سطح پر امن کی ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کا اعلان آج کا دن دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ یہ عرب و مسلم دنیا، اسرائیل، اور پوری دنیا کے لیے ایک شاندار دن ہے۔ ہم قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کو ممکن بنایا۔ اسی طرح ٹرمپ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ آئندہ ہفتے مصر کا دورہ کر کے اس معاہدے کے دوسرے مرحلے پر دستخط میں شرکت کر سکتے ہیں۔
I am very proud to announce that Israel and Hamas have both signed off on the first Phase of our Peace Plan. This means that ALL of the Hostages will be released very soon, and Israel will withdraw their Troops to an agreed upon line as the first steps toward a Strong, Durable,…
— Trump Truth Social Posts On X (@TrumpTruthOnX) October 8, 2025
پہلے مرحلے میں قیدیوں کی رہائی
معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس نے ان فلسطینی قیدیوں کی فہرست اسرائیل کو پیش کی ہے جنہیں وہ رہا کروانا چاہتی ہے۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ آج اس فہرست اور معاہدے کی باضابطہ منظوری دے گی۔ منظوری کے 72 گھنٹے بعد حماس تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ امریکا میں اسرائیلی سفیر یخئیل لیٹر کے مطابق اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو یرغمالیوں کی رہائی اتوار یا پیر کو ممکن ہو سکتی ہے۔
قطر اور اقوام متحدہ کا خیرمقدم
قطر کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے پر اتفاق ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریش نے اس موقع کو “دو ریاستی حل کی طرف ایک شاندار موقع” قرار دیا اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس امن معاہدے کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں۔
جنگ بندی پر اتفاق مگر خطرات پھر بھی برقرار
میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے غزہ کے لوگوں کی یہ پہلی رات ہے جو پُرسکون گزری ہے۔ نہ کوئی ڈرون نہ اورنہ ہی بمباری۔ لیکن غزہ کے عوام کا کہنا ہے کہ ابھی ہم اُس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں جب کوئی باضابطہ اعلان کرے گا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ تاہم، معاہدے کے اعلان کے باوجود اسرائیلی فضائی حملے جاری رہے خاص طور پر غزہ کے مغربی علاقوں الشاطی کیمپ، اور صبرہ محلے میں متعدد فضائی حملے کیے گئے۔
حماس کا ردعمل اور ٹرمپ کی تعریف
مزاحمتی تحریک حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہم اس معاہدے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ہم عالمی برادری، قطر، مصر، ترکی اور امریکی صدر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو معاہدے پر عملدرآمد پر مجبور کریں۔ نیز حماس قیادت نے ٹرمپ کی جنگ بندی کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔
نیتن یاہو پر اندرونی دباؤ
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی اس موقع کو اسرائیل کے لیے ایک عظیم دن قرار دیا لیکن اندرونی طور پر اُن پر شدید دباؤ ہے۔ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اور متعدد سیاستدانوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے ماضی میں کئی معاہدوں کو ناکام بنایا۔ خاص طور پرگزشتہ سال جولائی میں جب حتمی معاہدہ قریب تھا انہوں نے نئی شرائط عائد کر کے معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ لیکن اس وقت جب اسرائیل عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے پاس اس معاہدے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
بین الاقوامی ردعمل
ایک طرف تو بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو سراہا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب انسانی حقوق کے ماہرین نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوٗے کہا کہ امریکی پروفیسر نورا عراقت کا کہنا تھا بظاہر یہ معاہدہ خوش آئند ہے لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ معاہدہ فقط امریکا اور اسرائیل پر منحصر ہے جب وہ چاہیں اس معاہدے کو ختم کرسکتے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا اس معاہدے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو باقاعدہ فریق بننا چاہیے تھا تاکہ یہ مستقل اور پائیدار ہوتا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف
وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اسرائیل اور حماس کے جنگ بندی معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیامِ امن کے لیے اہم اقدام قرار دیا۔
وزرِ اعظم کا کہنا تھا مذکورہ معاہدہ غزہ میں انسانی المیے کے خاتمے اور خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت اور ثالث ممالک قطر، مصر اور ترکی کی کوششوں کو سراہا جبکہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔
کیا مستقل میں امن ممکن ہے؟
امریکی صدر ٹرمپ نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کو دوبارہ سے تعمیر کیا جائے گا تاکہ لوگ مل جُل کر رہیں۔ اسی طرح خطے کے دیگر ممالک بھی غزہ کی تعمیر میں حصہ لیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اب قیامِ امن ممکن ہوگا۔ تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے غزہ سے انخلا کرے اور فلسطینیوں کو خود ارادیت دے۔
حالیہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر اسرائیل اور حماس میں اتفاق طے پاگیا ہے۔ قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اگلے 3 دن تک ممکن ہے۔
غزہ میں طویل عرصے بعد ایک مرتبہ امن و امن کی صورت دیکھی جارہی ہے، عالمی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرادار کو بھی سراہا جارہا ہے
دیکھیں: حماس کی لچک، اسرائیل کی ہٹ دھرمی — جنگ یا امن کا فیصلہ کن موڑ