امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاک افغان سرحد پر جاری کشیدگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی تمام سرحدیں، بشمول فرضی حدود، مکمل طور پر امارت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔ ان کے مطابق وزارت دفاع امارت اسلامی اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ سرحدی نگرانی اور آپریشنل کوریج کو مزید مضبوط بنا رہی ہے۔ حالیہ عرصے میں سرحدوں کی حفاظت اور داخلی سلامتی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔
مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں مجموعی سیکیورٹی کی صورتحال اطمینان بخش ہے اور پچھلے آٹھ ماہ کے دوران کوئی بڑا سیاسی یا سیکیورٹی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کے مطابق جو عناصر ماضی میں خطے میں بدامنی پھیلاتے تھے، وہ یا تو مارے جا چکے ہیں یا گرفتار کیے گئے ہیں۔ کچھ حلقے افواہیں پھیلا کر عوام میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر افغان عوام کو ایسی من گھڑت باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان نے ہمیشہ شریعت کی روشنی میں اپنے عوام اور ملک کے مفاد کو سامنے رکھ کر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے اندر موجود ایک مخصوص گروہ افغانستان کے امن و استحکام سے خائف ہے اور مسلسل سازشیں کر رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ گروہ پاکستان کی فوجی قیادت کے اندر اقتدار پسند عناصر پر مشتمل ہے جو افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ یہ گروہ مختلف فورمز پر امارت اسلامی کے خلاف جھوٹی مہمات چلا رہا ہے، غلط معلومات تیار کر کے بین الاقوامی سطح پر پھیلا رہا ہے، اور پاکستان و افغانستان کے عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ افغانستان کے اندر فرقہ واریت پھیلانے، عوام کو گمراہ کرنے، اور امارت کے خلاف ورغلانے میں بھی ملوث ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان کی جانب سے فرضی سرحد پر جھڑپیں بھڑکانے، فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کرنے، اور سرحدی علاقوں میں بمباری کے واقعات قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کو اپنی زمینی اور فضائی حدود کے دفاع کا حق حاصل ہے، اور کسی بھی جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر داعش کے ٹھکانوں کو نظر انداز کر رہا ہے، جہاں سے افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق داعش خراسان کے سربراہ شہاب المہاجر، عبدالحکیم توحیدی، سلطان عزیز عزام اور مرکزی رابطہ کار صلاح الدین رجب پاکستان میں موجود ہیں۔ امارت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ ان افراد کو یا تو افغانستان کے حوالے کیا جائے یا ملک سے نکال دیا جائے۔
مجاہد نے کہا کہ داعش کے یہ مراکز خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سرگرم ہیں اور وہاں نئے افراد کو بھرتی کر کے تربیت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہی مراکز سے تہران میں جنرل قاسم سلیمانی اور ماسکو میں ہونے والے حملے منصوبہ بند کیے گئے تھے، جبکہ افغانستان میں علما، سرکاری شخصیات اور شہریوں پر حملوں کا ذمہ دار بھی یہی نیٹ ورک ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ فروری 2025 میں بلوچستان کے مستونگ میں داعش کے مراکز پر کارروائی کے دوران تقریباً 30 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے اور ان کے پاس یورپی پاسپورٹس بھی برآمد ہوئے۔ ان کے مطابق داعش کے باقی عناصر اب دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور مستقبل میں افغانستان اور دیگر ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گزشتہ رات امارت اسلامی اور پاکستانی فوج کے درمیان جھڑپوں میں 58 پاکستانی فوجی ہلاک اور 30 زخمی ہوئے، جبکہ امارت اسلامی کے 20 سے زائد اہلکار بھی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ قطر اور سعودی عرب کی درخواست پر آپریشن عارضی طور پر روک دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کے خلاف منفی رویہ، فضائی خلاف ورزیاں، اور اشتعال انگیز اقدامات بند نہ کیے تو ان کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کے مطابق افغانستان نے اپنی سرزمین کو فتنہ و فساد سے پاک کر دیا ہے اور اب کوئی بھی بیرونی جارحیت یا تخریب کاری برداشت نہیں کی جائے گی۔