حریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حالیہ احتجاج پر افغان طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد کے بیان نے پاکستان میں سیاسی اور سفارتی بحث کو ہوا دے دی ہے۔
زبیح اللہ مجاہد نے 13 اکتوبر کو “پاکستان میں مظاہرین پر فائرنگ اور جانی نقصان پر تعزیتی پیغام” کے عنوان سے بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج نے مظاہرین پر “براہ راست فائرنگ” کی جس سے “کئی ہلاکتیں اور مالی نقصان” ہوا۔
انہوں نے کہا، “ہم اس پر نہایت افسردہ ہیں اور متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کرتے ہیں، حکومت پاکستان مزید تشدد سے گریز کرے اورمذاکرات کرے۔”
اسلام آباد نے الزامات مسترد کر دیے
پاکستانی حکام نے اس بیان پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا، تاہم ذرائع نے اسے “غلط معلومات پر مبنی اور منافقانہ” قرار دیا۔
وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ احتجاج کے دوران کوئی فوجی دستہ تعینات نہیں تھا، بلکہ کارروائی پولیس اور سول انتظامیہ نے کی۔
ایک افسر نے کہا، “یہ قانون نافذ کرنے کی کارروائی تھی، کوئی خودمختار ملک مذہب کے نام پر مسلح گروہوں کو دارالحکومت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔”
سیاسی ماہرین کے مطابق طالبان کا بیان کابل کی حالیہ پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، جو پاک–افغان سرحدی کشیدگی کے بعد مزید تیز ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارتِ خارجہ نے 12 اکتوبر کو جاری بیان میں پہلی بار کابل کو “طالبان حکومت” کے بجائے “طالبان رجیم” قرار دیا — جو سفارتی سطح پر ایک نمایاں تنزلی ہے۔
ماہرین کا مؤقف: “یہ ہمدردی نہیں، پراپیگنڈا ہے”
اسلام آباد اور پشاور کے مبصرین نے زبیح اللہ کے بیان کو “اخلاقی نمائش کے پردے میں سیاسی مداخلت” قرار دیا۔
ایک سابق پاکستانی سفارتکار نے کہا، “جو حکومت ٹی ٹی پی جیسے قاتل گروہوں کو پناہ دیتی ہے، وہ اب ‘انسانی ہمدردی’ کا دعویٰ کر رہی ہے؟ یہ مضحکہ خیز ہے۔”
انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی کابل کی “منتخب ہمدردی” پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان خود دنیا کا ایک جبر زدہ ملک ہے، جہاں خواتین کی تعلیم و روزگار پر پابندی ہے اور صحافی قید یا لاپتہ کیے جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ پاکستان کی نئی سفارتی اصطلاح “طالبان رجیم” اس بدلتی ہوئی حکمت عملی کی علامت ہے، جو بھائی چارے سے زیادہ احتساب پر مرکوز ہے۔
علاقائی پس منظر
ماہرین کے مطابق کابل کا یہ بیان بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اس کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے بقول، “اگر طالبان واقعی انسانی جانوں کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انہیں پہلے اپنی سرزمین سے ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں ختم کرنی چاہئیں۔”
ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر
تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرے غزہ کی صورتحال پر حکومتی پالیسی کے خلاف اکتوبر کے آغاز میں شروع ہوئے تھے۔ لاہور اور دیگر شہروں میں مظاہرین کے حملوں کے نتیجے میں ایک ایس ایچ او جاں بحق اور کئی اہلکار زخمی ہوئے۔
اسلام آباد نے ان احتجاجات کو “قانون شکن کارروائیاں” قرار دیا۔
اختتامی تجزیہ
تجزیہ کاروں کے مطابق، زبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان کابل کی بدلتی سفارتی روش اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت کا ثبوت ہے۔
اسلام آباد کی جانب سے “طالبان رجیم” کی اصطلاح استعمال کرنا واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب “برداشت” سے “جوابی اقدام” کی پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
یہ معاملہ صرف الفاظ کا نہیں بلکہ خطے کی بدلتی پالیسی کا عکس ہے — اور شاید یہ اشارہ ہے کہ پاکستان کی صبر کی حد اب ختم ہو چکی ہے۔
دیکھیں: تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو منتشر کرنے کا آپریشن مکمل: ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک