صدر ٹرمپ نے اس دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بہت بڑی ہے اور کئی ممالک زیر زمین ایسے تجربات کرتے ہیں جنہیں عام طور پر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔

November 3, 2025

ریاستِ پاکستان روزِ اول سے ایسے مؤقف پر قائم ہے جسے عالمی برادری سمیت حالیہ استنبول مذاکرات میں ثالثی ممالک نے سراہا۔

November 3, 2025

یو اے ای میں قومی پرچم کی توہین پر 25 سال قید اور پانچ لاکھ درہم تک جرمانہ عائد کیا جائے گا

November 3, 2025

سوشل میڈیا پر گرما گرم تجزیے شروع ہو گئے۔ اسے امریکہ کا ”یوٹرن“ قرار دے کر پاکستانی حکومت کے لّتے لینے والے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔

November 3, 2025

روس بھی اس نئے کھیل میں ایک اہم فریق بن چکا ہے۔ اگرچہ وہ نایاب معدنیات کے لحاظ سے چین جیسی پوزیشن نہیں رکھتا، مگر توانائی اور گیس کی فرا ہمی کے ذریعے یورپ پر اپنا دبائو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

November 3, 2025

گلگت بلتستان کے دلکش پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان واقع ’بدھا راک‘ صدیوں پرانی تہذیب کا روشن نشان ہے۔ بدھ مت کے دور کی یہ یادگار آج حکومت کی غفلت اور مبینہ قبضہ مافیا کی نذر ہو رہی ہے۔

November 3, 2025

مہمان نوازی سے مایوسی تک – طالبان کا انتہاپسند رویّہ

ریاستِ پاکستان روزِ اول سے ایسے مؤقف پر قائم ہے جسے عالمی برادری سمیت حالیہ استنبول مذاکرات میں ثالثی ممالک نے سراہا۔

1 min read

مہمان نوازی سے مایوسی تک - طالبان کا انتہاپسند رویّہ

رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں تقریباً پچپن لاکھ (5.5 ملین) افغان باشندے روزگار اور امن کی تلاش میں پاکستان آئے۔

November 3, 2025

تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پاک افغان تعلقات طالبان کے دورِ اقتدار سے سے قبل روزِ اوّل سے ہی انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ پاکستان نے عالمی خطرات کا سامنا کرتے ہوئے لاکھوں افغان شہریوں کو پناہ دی ہے۔ اس دورانیے میں پاکستان نے نہ صرف افغان شہریوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کیں بلکہ ان کے لیے تعلیم، صحت، روزگار اور انسانی امداد کے دروازے بھی کھول دیے، جبکہ دوسری جانب دیگر ممالک کو اگر دیکھا جائے مثلاً ایران اور جرمنی جنہوں نے مہاجرین کو پناہ تو ضرور دی لیکن متعین علاقوں اور وسائل تک ہی محدود رکھا لیکن ریاستِ پاکستان کی جانب نظر دوڑائی جائے جس نے حقیقتاً غیر ملکیوں کے لیے ماں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تعلیم، صحت، روزگار الغرض ہر شعبے میں انکو بے پناہ مواقع فراہم کرتے ہوئے پاکستان میں رہنے کے لیے انکو رہائش فراہم کی۔

جبکہ حالیہ عرصے کی جانب نظر دوڑائی جائے تو یہ تعلقات ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، سرحد پار سے ہونے والی کاروائیاں اور واضح انداز میں دہشت گردوں کا افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمان کرنا دونوں ممالک کے مابین قربتوں اور اعتماد میں غیر معمولی اثر انداز ہورہے ہیں۔ زیرِ بحث موضوع انہی بنیادی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ اتنی وسیع پیمانے پر کی گئی امداد اور میزبانی کے باوجود ریاستِ پاکستان کے خلاف بعض طالبان عناصر کی جانب سے عدوّانہ رویہ آخر کیوں اختیار کیا گیا ہے۔ جن افراد پر گزشتہ نصف صدی کے دورانیے میں اتنے احسانات ہوں جو اقوامِ متحدہ سمیت عالمی ادارے بھی تسلیم کرچکے ہوں ان سب کے باوجود اسی محسن کے مقابل کھڑا ہونا یہ کونس انسانی وسفارتی رویہ ہے؟

اس تحقیق کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اتنے احسانات کے باوجود کس طرح دونوں ممالک کے مابین مخالف جذبات کو ہوا دی گئی۔ نیز اس تحقیق کا ہدف ان محرکات کا تجزیہ کرنا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اشتراک عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں خطے میں پائیدار امن اور باہمی مفاہمت کے امکانات پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

جیسے ابتدا میں بات کی گئی کہ ریاستِ پاکستان نے افغانستان اور طالبان پر کتنے احسانات کیے، چاہے وہ افغان شہری جو پاکستان میں پناہ والے ہوں یا پھر افغان سرزمین پر قائم ہسپتال، صحت اور شعبۂ تعلیم سے متعلق ہوں۔ آغاز سے اگر بات کی جائے تو کتاب “افغانستان کی تاریخی بنیادیں” میں مذکورہ کتاب کے مصنف محمد حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ 1803 میں جب برّصغیر کے مسلمان بالخصوص تحریک اور علم و فنون سے وابستہ لوگ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا یا ایران جانا چاہتے تھے تو افغانستان میں برسرِ اقتدار درانی سلطنت نے ان افراد کو افغان سرزمین سے راستہ دینے کے بجائے ان افراد کے لیے اپنی سرحدیں ہی بند کردیں۔


اسی طرح “تحریکِ خلافت” میں مصنف لکھتے ہیں کہ 1920 میں جب تحریکِ خلافت اپنے عروج پر تھی اس دوران ہزاروں اہلِ اسلام ہجرت کے نام پر اپنی کُل متاع کی پرواہ کیے بغیر کابل کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر اُس وقت کے افغان بادشاہ امان اللہ خان نے سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اور برطانوی سامراج کے دباؤ کے پیشِ نظر تحریکِ خلافت کے مہاجرین کو افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ وہ قافلے جو ایمان و حریت کے جذبے سے سرشار ہوکر نکلے تھے وہ تمام لوگ شدید مایوس و ناامید ہوکرلوٹے۔


وہ ریاست جس نے اہلِ اسلام کے لیے مدد تو درکنار اپنے داخلی دروازے تک بند کردیے تھے ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سویت یونین نے افغان سرزمین پر یلغار کی تو وہی لوگ جنکے آباؤ اجداد نے تحریکِ خلافت کے دوران راستے بند کیے تھے سویت یونین کی یلغار کے دوران 1979 میں اسکے برعکس ہوا اور وہی دروازے جو جو اہلِ اسلام کے لیے بند کیے گئے تھے آج لاکھوں افغان شہری انہی راستوں سے پاکستان کی سرزمین پر داخل ہوئے اور ریاستِ پاکستان نے مذہبی و انسانی ہمدردی کے ناطے انکو پناہ دی۔


رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں تقریباً پچپن لاکھ (5.5 ملین) افغان شہری روزگار اور امن کی تلاش میں پاکستان آئے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے کہ کسی مُلک کی 37 فیصد آبادی کو دوسرا ملک پناہ دے اپنے امن و استحکام کے خطرات کے باوجود۔ اسی طرح 2022 تک کی رپورٹ کے مطابق 50 ہزار افغان طلبا پاکستانی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ جبکہ 15 ہزار سے زائد طلبا پاکستان کی دینی درسگاہوں سے تعلیم مکمل کی ہے۔اسی طرح 2021 سے 2023 کے درمیان 6000 سے زائد وظیفے افغان طلبا کو دیے گئے۔ یہ محض شعبۂ تعلیم میں کیے گئے اقدامات ہیں جو پاکستان نے اپنی ریاست میں افغان طلبا کے روشن مستقبل کے لیے اقدامات کیے جبکہ اس سے ہٹ کر دیکھا جائے کہ پاکستان نے افغان سرزمین میں تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کیا اقدامات کیے تو محض تعلیمی اداروں کے قیام میں تعاون ہی نہیں کیا بلکہ کابل یونیورسٹی کا ایک پورا بلاک جو علامہ اقبال کے نام سے منسوب ہے پاکستان نے تعمیر کروایا جو ریاست کی جانب سے افغان شہریوں کے لیے تعلیم و ترقی سے متلعق فکر مندی کی واضح علامت ہے۔

شعبۂ تعلیم کے علاوہ صحت کے شعبے میں پاکستان نے افغانستان میں تین ہسپتال بھی تعمیر کیے جن میں ایک دشت برچی میں اور دوسرا ننگرہار میں جو آج بھی شہریوں کو طبی امداد فراہم کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ دشت برچی میں موجود ہسپتال افغان طالبان کی نالائقی یا پاکستان سے عداوت کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے۔ اسی طرح افغان شہریوں کو جب بھی علاج کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ہی آتے ہیں۔ اسی طرح چند عرصہ قبل جب افغانستان زلزلے سے شدید متاثر ہوا تو اس وقت بھی پاکستان نے انسانی اور مذہبی ہمدردی کے ناطے بڑے پیمانے پر افغان زلزلہ متاثرین کی مدد کی۔ ان سب کے باوجود افغانستان کی ہمدردیاں اور قربتیں پاکستان دشمن بھارت سے ہی رہیں حالانکہ پاکستانی امداد و تعاون کے سامنے ایران و بھارت کا تعاون نہ ہونے کے برابر تھا۔

خیال رہے کہ ریاستِ پاکستان کی اس نوعیت کے اقدامات محض انسانی و مذہبی ہمدردی کی بنیاد پر تھے۔ مگر جواب میں ہمیشہ افغان سرزمین سے پاکستان کو مسائل کا شکار کیا گیا کبھی افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا اور کبھی ٹی ٹی پی کے ذریعے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔


ریاستِ پاکستان روزِ اول سے ایسے مؤقف پر قائم جسے عالمی برادری سمیت حالیہ استنبول مذاکرات میں ثالثی ممالک نے سراہا۔ پاکستان کا اختلاف افغان عوام سے نہیں بلکہ اُن افراد و اداروں سے ہے جو دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی تناظر میں ریاستِ پاکستان کا پیغام بلکل واضح اور دوٹوک ہے کہ اگر افغانستان امن چاہتا ہے تو امن کا راستہ اختیار کرے کیونکہ جنگ دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہوگی۔

پاکستان آج بھی اسی اصول پر قائم ہے کہ طالبان اپنی سرزمین دہشت گردوں سے پاک کریں اور یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے خطے میں امن و استحکام قائم ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

صدر ٹرمپ نے اس دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بہت بڑی ہے اور کئی ممالک زیر زمین ایسے تجربات کرتے ہیں جنہیں عام طور پر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔

November 3, 2025

یو اے ای میں قومی پرچم کی توہین پر 25 سال قید اور پانچ لاکھ درہم تک جرمانہ عائد کیا جائے گا

November 3, 2025

سوشل میڈیا پر گرما گرم تجزیے شروع ہو گئے۔ اسے امریکہ کا ”یوٹرن“ قرار دے کر پاکستانی حکومت کے لّتے لینے والے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔

November 3, 2025

روس بھی اس نئے کھیل میں ایک اہم فریق بن چکا ہے۔ اگرچہ وہ نایاب معدنیات کے لحاظ سے چین جیسی پوزیشن نہیں رکھتا، مگر توانائی اور گیس کی فرا ہمی کے ذریعے یورپ پر اپنا دبائو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

November 3, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *