سینئر صحافی حامد میر کی جانب سے فلسطین کے مسئلے پر حالیہ ویڈیو بیان نے ایک بار پھر تنازعہ کھڑا کر دیا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان کے اصولی دو ریاستی مؤقف کو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مؤقف کے خلاف قرار دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ دعویٰ تاریخی حقائق سے متصادم ہے اور محض سنسنی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حامد میر نے بانیٔ پاکستان کے 1947ء کے خط کے مفہوم کو غلط انداز میں پیش کیا۔ اُس خط میں قائداعظم نے فلسطین کی زبردستی تقسیم کی مخالفت کی تھی، نہ کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کی۔ ان کا مقصد انصاف اور خود ارادیت کے اصولوں کا دفاع تھا۔
تاریخی طور پر 1947ء میں عرب دنیا نے اقوامِ متحدہ کے تقسیم منصوبے کو مسترد کیا، لیکن بعد ازاں عرب لیگ، او آئی سی، اور خود فلسطینی تنظیموں نے عملی حقائق کے مطابق دو ریاستی حل کو تسلیم کر لیا۔ حتیٰ کہ حماس نے بھی اس فریم ورک میں مذاکرات کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کا مؤقف آج بھی مسلم دنیا میں سب سے زیادہ اصولی ہے — یعنی 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار، قابلِ عمل فلسطینی ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ حامد میر کا یہ بیانیہ دراصل میڈیا توجہ حاصل کرنے اور ریاستی پالیسی کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے۔ ان کے مطابق میر کی گفتگو میں تاریخ کی جان بوجھ کر مسخ شدہ تشریح کی گئی تاکہ انسانی مسئلے کو سنسنی خیزی میں بدلا جا سکے۔
پاکستان کا مؤقف واضح ہے: انصاف، خود ارادیت اور بین الاقوامی قانون پر مبنی فلسطینی ریاست کا قیام — نہ کہ کسی طاقت کے دباؤ پر اپنایا گیا مؤقف۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ میر کی “تجزیاتی ویڈیو” دراصل زرد صحافت کی ایک مثال ہے جو قومی اتفاقِ رائے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
دیکھیں: غزہ امن معاہدے کی کامیابی کے باوجود ٹی ایل پی کا احتجاج جاری؛ جڑواں شہروں میں معمولات زندگی معطل